قطری سفارتخانے کی گاڑیوں سے زیادہ فائدہ شریف خاندان نے اٹھایا

وقائع نگار
قطری سفارتخانہ نے شکار کے نام پر 90 گاڑیاں پاکستان منگوائی تھیں، جو ملک بھر میں مختلف افرادکو دے دی گئیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے 50 گاڑیاں شریف خاندان اور ان کے دوستوں کے زیر استعمال ہیں۔ ان گاڑیوں کے ناجائز استعمال کا انکشاف مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر سے پکڑی جانے والی گاڑی سے ہوا۔ کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے روات میں پکڑی گئی 26 نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ قطری شہزادوں کی ہیں اور پاکستان میں ان کی ملکیت قطری سفارتخانے کی ہے۔ لیکن سفارت خانے کو ابھی ان کے ملکیتی کاغذات کسٹم حکام کو پیش کرنے ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں سابق چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) سیف الرحمٰن کی ٹیکسٹائل ملز کے گودام میں رکھی گئی تھیں۔ چھاپے کے دوران سیف الرحمٰن کی ٹیکسٹائل ملزکے ویئر ہاؤس سے 26 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں برآمد ہوئی تھیں، جنہیں وہیں سیل کر دیا گیا تھا۔ جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ دیگر گاڑیاں لاہور میں اہم شخصیات کے زیر استعمال ہیں۔ ذرائع کے بقول ان گاڑیوںکا سراغ اس طرح لگا کہ مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدرکی گاڑی پر قطر سفارتخانے کی نمبر پلیٹ لگی تھی۔ اس گاڑی کو پکڑ ا گیا تو ڈرائیور نے مزید گاڑیوں کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قطری سفارتخانے کی 90 گاڑیاں اہم پاکستانی شخصیات کے زیر استعمال ہیں، جن میں سے 50 کے شریف خاندان اور ان کے دوستوں کے پاس ہیں۔ یہ 90 لگژری گاڑیاں 3 برس قبل شکار کیلئے لائی گئی تھیں، جبکہ کسٹم ایس آر او جاری کرکے انہیں صرف تین ماہ کیلئے کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا گیا۔ تاہم قطری شہزادے گاڑیاں واپس لے کر گئے، نہ ہی ان کی ڈیوٹی ادا کی۔ سیف الرحمن کی ٹیکسٹائل ملز سے جب 26 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑی گئیں تو سیف الرحمٰن کی کمپنی کے منیجر نے گاڑیوں کے کاغذات فراہم کرنے کیلئے وقت مانگ لیا، جس پر کسٹم حکام نے تین دن کی مہلت دی ہے۔ کسٹم ذرائع کا کہنا تھا کہ 3 روز میں ثبوت فراہم نہ کرنے پر مقدمہ درج ہوگا۔ ادھر قطر کے سفارتخانے نے گاڑیاں قطری شہزادوں کی ملکیت ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شکار کیلئے آنے والے شہزادے جاتے ہوئے اپنی گاڑیاں اپنے میزبانوں کو بخش جاتے ہیں اور قانون کے مطابق گاڑیوں کی سفارتی حیثیت ختم نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے گاڑیاں حاصل کرنے والوں کو کسٹم ڈیوٹی اور سالانہ موٹر وہیکل ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔ جبکہ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ شکار کیلئے لائی گئی سفارتی حکام کی گاڑیوں کو ٹیکس کی معافی صرف 3 ماہ کیلئے ہوتی ہے۔ کسٹم حکام نے بھی ایس آر او جاری کرکے ان گاڑیوں کو تین ماہ کیلئے کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا تھا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین کی کوشش ہے کہ اس معاملے کو کسی طرح دبا دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ذرائع کے بقول نان کسٹم پیڈ سفارتی گاڑیوں کے غیر قانونی استعمال کی خبریں کافی عرصے سے کسٹم حکام کے علم میں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کو سفارتی گاڑی میں سفر کرتے دیکھا گیا اور کسٹم انٹیلی جنس نے اس معاملے کا سراغ لگایا تو معلوم ہوا کہ لگژری گاڑیاں قطر کے سابق وزیر اعظم شیخ حمد بن جاسم شکار کی آڑ میں پاکستان لائے تھے اور وطن واپسی پر شریف خاندان کے حوالے کر گئے، جو نواز لیگ کے رہنما سابق سینیٹر سیف الرحمن کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کھڑی کردی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق قطری شہزادے پاکستان میں تلور کے شکار کیلئے آتے تھے، جسے عالمی سطح پر نایاب پرندہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن قطری شہزادوں کے شکار کو قانونی بنانے کیلئے پنجاب حکومت نے 2017ء میں تلور کی تعداد میں واضح اضافے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس پرندے کا نام نایاب پرندوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ تاہم لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اس دعوے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات کے وکیل سے پرندے کی آبادی کا اندازہ لگانے کیلئے کئے جانے والے سروے کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا لگتا ہے حکومت نے رات میں خواب دیکھا اور اگلی صبح بیدار ہو کر تلور کا نام نایاب پرندوں کی فہرست سے نکال دیا۔ محکمہ جنگلی حیات کا سروے بمشکل قابل بھروسہ لگتا ہے۔ دوسری جانب شکار کی اجازت کیخلاف درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ شیراز ذکا کا دعویٰ تھا کہ تلور پرندہ تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے اور کوئی محکمہ ایسا نہیں جو اس کے اعداد و شمار پیش کرسکے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین نے عدالت کو بتایا تھا کہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تلور پر جمع کرائی گئی رپورٹس قابل بھروسہ نہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رپورٹس صرف اندازوں پر قائم کی گئی ہیں اور تلور کی تعداد کے حوالے سے صرف حکومتی رپورٹس کو مستند مانا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں کی لالچ میں نایاب پرندوں کے شکار کی اجازت دی گئی۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سفارتی طور پر قطری شہزادے حماد بن جاسم کو پاکستان کسٹم کے قوانین کے مطابق گاڑیوں کو پاکستان لانے کی اجازت تو ہے لیکن سفارتی چینل سے آنے والی گاڑیوں کوکسی پاکستانی شہری کو استعمال کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ فائز ہو، اس کا یہ کام غیر قانونی ہوگا۔ ذرائع کے مطابق قطری سفارت خانہ اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اس نے یہ گاڑیاں صرف پارکنگ کیلئے سیف الرحمن کو دی تھیں اور یہ اس کی ملکیت ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 90 میں سے 26 گاڑیاں وہاں سے برآمد ہوئی ہیں، باقی 64 گاڑیاں کہاں ہیں اور مریم نوازکے بیٹے جنید صفدر کس حیثیت میں قطری سفارتخانے کی گاڑی چلا رہے تھے۔کسٹم حکام نے انہی سوالوں کے جواب کیلئے سیف الرحمن اور قطری سفات خانے کو تین دن کی مہلت دی ہے، جس میں سے ایک دن گزر گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment