امت رپورٹ
ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی اسکینڈل کے کینیڈا میں چھپے ملزمان کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق اسکینڈل کے اہم ملزم مرتضیٰ امجد کو دبئی سے گرفتار کر لیا گیا، جو سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کا داماد ہے۔ اس خبر سے سوسائٹی کے متاثرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جبکہ اس اقدام کے بعض سیاسی پہلو بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اور ذرائع کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ امجد کی گرفتاری کے بعد سابق چیف جسٹس پر عمران خان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن واپس لینے کا دبائو بڑھ گیا ہے۔
ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی فراڈ کے نتیجے میں 300 کے قریب لوگوں کی ساری عمر کی جمع پونجی ڈوب گئی۔ یہ متاثرین پچھلے نو، دس برس سے دھکے کھا رہے ہیں۔ ان میں دبئی، سعودی عرب، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی بھی شامل ہیں۔ جبکہ ایڈن ڈویلپرز کے دیگر پروجیکٹ کے خلاف بھی نیب میں 9 ہزار سے زائد شکایات درج ہیں۔ ذرائع نے کیس کے سیاسی پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دور حکومت میں اس اسکینڈل کو مسلسل دبایا جاتا رہا۔ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے چارج سنبھالا تو اس اسکینڈل کے خلاف تحقیقات میں کچھ پیش رفت ہوئی۔ تاہم ملزمان کو کٹہرے میں لانے کی راہ میں وزارت داخلہ رکاوٹ بنی رہی۔ ذرائع کے مطابق کیس نے سیاسی رخ اس وقت اختیار کیا، جب عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی ہر اس حلقے میں عمران خان کے کاغذات نامزدگی چیلنج کرے گی، جہاں سے وہ الیکشن میں کھڑے ہوں گے۔ اور پھر جب عمران خان نے پانچ انتخابی حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو افتخار چوہدری کی پاکستان جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی نے ان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنی بیٹی ٹیریان وائٹ کا نام کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ لہٰذا انہیں الیکشن لڑنے سے روکا جائے۔ تاہم پانچوں حلقوں کے ریٹرننگ افسروں نے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا۔ اس پر افتخار چوہدری کی پارٹی عدالت پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق اس اقدام کو کائونٹر کرنے کے لئے ہی تحریک انصاف نے نیب کو خط لکھا تھا۔ جس میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری اور ان کی فیملی کے خلاف ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی اسکینڈل میں فوائد اٹھانے کی تحقیقات کی جائیں۔ اور یہ کہ اس سلسلے میں افتخار چوہدری، ان کی صاحبزادی، داماد اور سمدھی کے خلاف فوری ایکشن نہ لیا گیا تو نیب کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھیں گے۔ جس پر نیب نے ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی کے مرکزی ملزمان ڈاکٹر امجد، ان کی اہلیہ انجم امجد، دو بیٹوں مرتضیٰ امجد اور مصطفی امجد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے وزارت داخلہ کو خط لکھا۔ تاہم وزارت داخلہ ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان دبئی فرار ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے اس لئے گریز کرتی رہی کہ ان دنوں نواز شریف، مریم نواز اور اسحاق ڈار کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، لہٰذا وزارت داخلہ کو خدشہ تھا کہ اگر اس مرحلے پر ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی اسکینڈل کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے تو پھر شریف خاندان کے نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا دبائو بڑھ جائے گا۔ ذرائع کے بقول ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ نواز حکومت اپنے آخری دور میں افتخار چوہدری کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتی تھی۔ جو پہلے ہی لیگی حکومت کے خلاف جارحانہ بیان جاری کر رہے تھے۔ بعض واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ ان بیانات کا پس منظر بھی یہی تھا کہ ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی مالکان پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے۔ لہٰذا گزشتہ حکومت کے پورے دور میں متاثرین کو سوائے دھکوں کے اور کچھ نہیں ملا اور اسکینڈل کی تحقیقات بھی سرد خانے میں پڑی رہیں۔ تاہم نئے چیئرمین نیب کے آنے کے بعد رواں برس کے اوائل میں لاہور نیب کو اس اسکینڈل کی تحقیقات کا ٹاسک سونپا گیا۔
ایڈن ڈویلپرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ڈاکٹر امجد، ان کی اہلیہ انجم امجد، دونوں بیٹوں مرتضیٰ اور مصطفی امجد کے پاس کینیڈین شہریت ہے۔ ملک سے دبئی فرار ہونے کے بعد یہ فیملی کینیڈا چلی گئی۔ ذرائع کے مطابق دبئی سے گرفتار مرتضیٰ امجد بھی کینیڈا میں تھا، تاہم کسی کام سے دبئی آیا اور دھر لیا گیا۔ اب کینیڈا میں روپوش مرتضیٰ امجد کی فیملی کے دیگر ارکان کو واپس لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے بقول دبئی کی بہ نسبت کینیڈا سے ملزمان کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانا قدرے مشکل ٹاسک ہے۔ تاہم اس کے لئے انٹرپول سے رابطہ کیا جا چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ امجد کے پکڑے جانے کے بعد افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کی گرفتاری کا امکان بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ اس اسکینڈل سے بالواسطہ طور پر ارسلان افتخار نے بھی فائدہ اٹھایا۔ ساتھ ہی اس معاملے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم نیب لاہور کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال افتخار چوہدری کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی ہدایت انہیں نہیں ملی۔ کیونکہ افتخار چوہدری کا اس معاملے سے صرف اتنا لنک ہے کہ مرکزی ملزم مرتضیٰ امجد ان کا داماد ہے۔ تاہم ایشو کے سیاسی پہلو پر نظر رکھنے والے ذرائع کے بقول نئی پیش رفت کے بعد افتخار چوہدری پر یقیناً دبائو بڑھ گیا ہے کہ وہ عمران خان کی نااہلی سے متعلق اپنی پٹیشن عدالت سے واپس لے لیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس اس پریشر کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ جبکہ وہ عمران خان کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
80ء کی دہائی کے اوائل میں ایڈن ڈویلپرز نے محض چند لاکھ روپے سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بلڈر گروپ ارب پتی بن گیا۔ اس وقت ایڈن ڈویلپرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے لاہور میں 21 رہائشی اور کمرشل پروجیکٹس ہیں۔ جن میں ریس ویو ولاز، گلبرگ ہومز، ایڈن ہومز، لبرٹی ہومز، گرین ویو ہومز، ایڈن ولاز، ایڈن پارک، ایڈن سینٹر، ایڈن کاٹیج ون، ایڈن کاٹیج ٹو، ایڈن ہائٹس، ایڈن ایونیو، ایڈن ڈیفنس ولاز، ایڈن ٹاور کمپلیکس، ایڈن کنال ولاز، ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی، ایڈن گارڈن، ایڈن لین ولاز ون، ایڈن لین ولاز ٹو، ایڈن آباد اور ایڈن سوسائٹی شامل ہیں۔ جبکہ ایک رہائشی پروجیکٹ ایڈن لائف سرگودھا میں ہے۔
دبئی سے گرفتار ایڈن ڈویلپرز کے چیف ایگزیکٹیو مرتضیٰ امجد پاکستان میں شاہانہ زندگی گزار رہے تھے۔ موصوف کے پاس مہنگی ترین فراری کے علاوہ دیگر قیمتی گاڑیاں بھی تھیں۔ ایڈن سینٹر کا ایک حصہ آئے دن ہونے والی پارٹیوں کے لئے مختص تھا۔ جس میں شہر بھر کے دولت مندوں کی اولادیں شریک ہوا کرتی تھیں۔ ایڈن ڈویلپرز کی گھاگ فیملی نے اس وقت افتخار چوہدری سے رشتہ داری جوڑی، جب وہ چیف جسٹس پاکستان تھے۔ قریباً پانچ برس قبل ایڈن ڈویلپرز کے بانی ڈاکٹر امجد کے بیٹے مرتضیٰ کے ساتھ افتخار چوہدری کی صاحبزادی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی۔ سادہ سی تقریب میں صرف قریبی رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایڈن ہائوسنگ اسکینڈل تو اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ تاہم ایڈن گروپ کے خلاف 900 ملین روپے کے بلز ادا نہ کرنے سے متعلق ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن اسکینڈل کی تحقیقات چل رہی تھیں۔ جس پر بطور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایف آئی اے کو ایڈن گروپ مالکان کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس ساری ڈویلپمنٹ پر لاہور میں موجود ایک دل جلے لیگی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جتنی پھرتی ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی اسکینڈل کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں دکھائی گئی ہے، اتنی ہی تیزی حکومت کو دیگر ہائوسنگ سوسائٹیوں کے اسکینڈلز میں بھی دکھانی چاہئے۔ جس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی کی کمپنی کا اسکینڈل موجودہ حکومت کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔ نیب نے دو برس قبل کامران کیانی کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے، جو مبینہ طور پر بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ کامران کیانی ڈی ایچ اے سٹی لاہور کے 16 ملین روپے کے اسکینڈل میں مطلوب ہیں۔ عہدیدار کے مطابق ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی اسکینڈل میں متاثرین کے 13 ارب روپے کے قریب ڈوبے ہیں۔ جبکہ نیب، ایڈن ڈویلپرز مالکان کے 15 ارب روپے سے زائد کے اثاثے منجمد کر کے اپنی تحویل میں لے چکا ہے۔ لہٰذا حکومت ان اثاثوں کو نیلام کر کے حاصل ہونے والی رقم متاثرین میں تقسیم کر کے انہیں فوری ریلیف دے سکتی ہے۔ تاہم حکومت کی دلچسپی متاثرین کو فوری ریلیف دینے سے زیادہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں دکھائی دے رہی ہے۔٭
٭٭٭٭٭