حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
اسی دوران جبکہ مسٹر گاندھی نے کانگریس کو مسلمانوں کی حمایت کی وجہ سے اپنے طور پر ایک عوامی جماعت منوا لیا تھا۔ حکومت برطانیہ کو زچ کرنے کے لیے ایک نئی تحریک ترک موالات شروع کی۔ جس کا مقصد تھا کہ انگریزوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ مگر مسٹر گاندھی نے پوری زندگی مسلمانوں سے عناد برقرار رکھا۔ جب مسلمانوں کے اکثریت والے علاقوں میں جاتا تو انہیں انگریزوں کے اسکولوں اور اداروں کے بائیکاٹ کا کہتا اور چرخہ کاتنے کی تلقین کرتا، مگر جب ہندو اکثریت کے علاقوں میں جاتا تو انہیں تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کام محنت سے کرنے کا حکم دیا۔
عام مسلمانوں کو اس کی یہ بے رخی تو دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مگر حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ سے تو نہیں چھپی رہ سکتی تھی۔ آپؒ سے جب ترک موالات کے جواز کے بارے میں حکم پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہود اور مشرکین کی عداوت کلام الٰہی میں صراحۃً مذکور ہے۔ پس ترک موالات ہندو اور انگریز اور یہود سب سے ہونی چاہئے۔ تفریق اور ترجیح بلا مرجح ٹھیک نہیں۔ نیز آپ نے کھدر کے استعمال کو بھی ایک مطالبہ کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور فرمایا فقہ اور دین کی کتابوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں اور ذبیح گائو کی قباحت کو آپ نے شدت سے رد فرما دیا۔ آپ نے فرمایا کہ گائے کی خوبیاں اور فضیلت مذکور ہے۔ اس طرح آپ نے مسٹر گاندھی کی تمام باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار فرمایا۔
آپ کی ان باتوں سے بڑے بڑے رہنما ناراض دکھائی دینے لگے۔ مگر حضرت صاحبؒ نے شرعی مسائل کی نشاندہی کرنے میں کسی کی بھی ناراضگی کی قطعی پروا نہ فرمائی۔ اب صورت حال کچھ اس طرح عیاں ہوئی کہ انگریزوں کو حضرت صاحب کی حمایت حاصل کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ مسلمان رہنمائوں سے آپ پر دبائو ڈلوا کر انگریز حکومت نے دیکھ لیا تھا کہ آپ کے کسی بھی سوال کا جواب ان رہنمائوں کے پاس نہ تھا اور حضرت صاحب ان کو لاجواب کر کے واپس روانہ فرماتے تھے۔
حسب طریقہ انگریزوں نے آپ کو پھانسنے کا ایک طریقہ نکالا کہ آپ کو 400 مربع نہری اراضی دینے کی پیشکش کی۔ اس سلسلے میں پیشکش کرنے والے ذمہ دار نے حضرت صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس جاگیر کی ہر طرح قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہونے کے دلائل دیئے۔ اور بطور دلیل کہا کہ حکومت پر واجب ہے کہ اپنی رعایا کی تعلیمی بہبود کے لیے مالی اعانت کرے۔ چنانچہ مختلف کالجز، اسکولز اور یونیورسٹیز کو گرانٹ دی جارہی ہے، یہ خانقاہ بھی ایک تعلیمی ادارے کا درجہ رکھتی ہے اور روحانی تربیت اصل کرنے کے لیے عوام اور خواص کا ایک بڑا حصہ اس میں حاضر رہتا ہے۔
حضرت پیر صاحب نے اس کی تقریر کو بڑے تحمل سے سنا اور فرمایا کہ’’جو حکومت ہم پر اتنا بڑا احسان روا رکھے، تو بطور انسان ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں اس احسان کا معاوضہ ادا کریں اور اگر عملاً اور کچھ نہ کر سکیں تو ازراہ شکر گزاری کبھی کبھار اس حکومت کے بڑے بڑے کارپردازوں کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام ہی کر آیا کریں۔ لیکن میں تو اتنا کرنے سے بھی معذور ہوں۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں یا کچھ عرصہ یہاں رہ کر دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور روحانی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ رب تعالیٰ ان کے اخراجات اور ضروریات کی کسی نہ کسی صورت میں بہتر کفالت فرما دیتے ہیں۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ خلافت کی تحریک کے بعد یہ تحریک، خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد عملی طور پر ختم ہو گئی تھی۔ مسٹر گاندھی نے اپنا رخ مسلمانوں سے پھیر لیا اور اپنا زہر مسلمانوں کے خلاف اگلنا شروع کر دیا۔ دوسری جانب ہندو انتہا پسندوں کی حمایت جاری کر دی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment