علامہ طنطاویؒ نے اپنی سائنسی تفسیر الجوہر میں لکھا ہے: ایک امریکی شخص نے انڈوں سے مرغی کے واسطے کے بغیر بچے نکالنے کا ارادہ کیا، اس کے ذہن میں یہ ترکیب آئی کہ وہ انڈوں کو اتنی ہی حرارت پہنچائے گا جتنی مرغی سے ملتی ہے۔ جب اس نے انڈے جمع کر کے اپنا کام شروع کیا تو ایک کسان نے اسے کہا: صاحب ان انڈوں کو چوبیس گھنٹوں میں ایک مرتبہ ضرور پلٹ دیا کریں، کیوں کہ میں نے مرغی کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو امریکی کہنے لگا: مرغی تو انڈوں کو اس لئے پلٹتی ہے، تاکہ انڈوں کے اس حصے کو بھی اس کے بدن کی حرارت پہنچ جائے۔ جن تک پہلے نہیں پہنچی اور ہم تو انڈوں کے تمام حصوں کو حرارت پہنچارہے ہیں۔ لہٰذا ہمارا اور مرغی کا طریقہ کیسے برابر ہوسکتا ہے۔
وہ شخص اپنا کام اپنی عقل کے مطابق کرتا رہا، جب بچوں کے نکلنے کا وقت آیا تو ایک بچہ بھی نہ نکلا۔ اب یہ سوچنے لگا کہ دوسری بار کسان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کروں گا۔ پھر اس نے اس طرح کیا تو تمام انڈوں سے صحیح سلامت بچے نکلے۔ یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جب سائنسدانوں نے غور کیا تو آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جس وقت انڈے میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو جب تک حرکت نہ دی جائے تو سارا مواد انڈے کے نچلے حصے میں جمع ہو کر وہ حفاظتی جھلی کو توڑ دیتا ہے۔ مثلاً اگر نچلی طرف چوزے کا سر ہوگا تو وہ کثرت مواد کی وجہ سے گل سڑ جائے گا، اسی طرح تمام دوسرے اعضاء کا حال بھی ہوگا۔ یہی وجہ وہ بے شمار مثالیں ہیں اور اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ہم ایسی جہالت کے کنویں میں ہیں، جس کی انتہا معلوم نہیں۔ سچ فرمایا حق سبحانہ و تعالی نے قرآن حکیم میں:
ترجمہ: کہا رب ہمارا وہ ہے جس نے دی ہر چیز کو اس کی صورت پھر راہ سمجھا دی۔
اس آیت مبارکہ کے تحت صاحب تفسیر عثمانی لکھتے ہیں کہ یعنی ہر چیز کو اس کی استعداد کے موافق شکل و صورت، قویٰ، خواص و غیرہ تخلیق فرمائے اور کمال حکمت سے جیسا بنانا چاہئے تھا بنایا پھر مخلوقات میں سے ہرچیز کے وجود و بقا کے لئے جن سامانوں اور چیزوں اور عمل کی ضرورت تھی، مہیا کئے اور ہر چیز کو اپنی مادی ساخت اور روحانی قوتوں اور خارجی سامانوں سے کام لینے کی راہ سمجھائی۔ (جیسا کہ مرغی کے انڈوں کی ایک بہترین مثال بیان کرگئی ہے) پھر ایسا محکم نظام دکھلا کر ہم کو بھی ہدایت کردی کہ مصنوعات کے وجود سے صانع و کاریگر کے وجود پر کس طرح استدلال و ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی کھانے پینے کو ہوش و حواس دیئے بچہ کو دودھ پینا، مرغی کو انڈوں سے بچے نکالنا وغیرہ رب تعالیٰ ہی نہ سکھائے تو کوئی بھی نہ سکھا سکے۔
اسی مضمون کی مناسبت سے درج ذیل واقعہ بھی ملاخطہ فرمائیں:
امام احمد بن حنبلؒ سے ایک سوال:
امام صاحبؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے جہان کے بنانے والے کا پتہ کس طرح لگایا ہے؟ فرمایا کہ میں نے ایک دن ایک سفید گنبد دیکھا جس میں کہیں راستہ نہ تھا، جس کا نہ در تھا نہ کوئی کھڑکی وغیرہ اور نہ کوئی اندر جا سکتا تھا نہ اندر سے باہر آسکتا تھا۔ میرے سامنے وہ گنبد خود بخود شق ہوا اور اس سے ایک حسین و خوبصورت اور خوش الحان زندہ جانور کا بچہ نکلا، انڈے کے اندر ہی سے اپنے دوست و دشمن کی پہچان سیکھ گیا تھا۔ دشمن کا پنجہ اور ماں کی شفقت کے پروں کو خوب پہچانتا تھا۔ جو پیدا ہوتے ہی ماں کے بلانے کی آواز کو سمجھتا تھا۔ جہاں کوئی دانہ دنکا وغیرہ نہ دیکھا تھا اور نہ اپنے کھانے کی چیزوں کو پہچانتا تھا۔ بغیر سکھائے کھانا پینا سارے کام وہ خوب کرتا تھا۔ بتاؤ انڈے کے اندر کس نے اسے یہ کام تعلیم کیے تھے۔ جو انڈے کے بند گنبد میں اس ننھے منے بچہ کو تعلیم و تربیت کرنے والا ہے۔ وہی خالق کائنات ہے اور جہاں کا بنانے والا خود حق تعالیٰ جل شانہٗ ہے۔ اس کی خبر ہمیں رسول اقدسؐ نے قرآن کریم کے ذریعے دی ہے کہ وہ حق تعالیٰ ہی سب کا خالق و مالک ہے، اس کے آگے ہم سب جواب دہ ہیں اور وہ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
٭٭٭٭٭