سرفروش

عباس ثاقب

میں چند لمحے افتخار صاحب کے مزید کچھ کہنے کا منتظر رہا۔ بالآخر میں نے خود بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن میرے علم میں تو یہ بات آئی تھی کہ پاکستانی بحریہ کی طرف سے جدید آبدوز کی خریداری کے لئے مختلف ممالک کے ساتھ گفت و شنید کی جا رہی ہے‘‘۔
افتخار صاحب نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔ ’’خوش قسمتی سے ایڈمرل چوہدری کے جانشین وائس ایڈمرل افضل رحمان خان بھی آبدوزوں کی دفاعی اہمیت کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں اور ان کے صدر جنرل ایوب خان سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ چنانچہ ملکی وسائل کے اندر رہتے ہوئے آبدوزوں کی خریداری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن ملکی سربراہ کی نظر میں اس مہنگی خریداری کو قابلِ قبول بنانے میں انہیں نہ جانے کتنا وقت لگ جائے۔ تاہم اس دوران انہوں نے گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے بحریہ کے عملے کو امریکا اور برطانیہ میں آبدوزوں سے متعلق معاملات کی تربیت اور مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، تاکہ آبدوز دستیاب ہوتے ہی اسے چلانے کے لیے ہمارے لوگ پوری طرح تیار ہوں‘‘۔
میں نے اپنی مایوسی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’یعنی آئی این ایس وکرانت کے حوالے سے حاصل کردہ تمام معلومات بے سود ہیں اور فی الحال اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں اور وہ بے فکر ہوکر کھلے سمندر میں گوا پر حملے کے لئے جا سکتا ہے…۔ لیکن دشمنوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاکر اسے غرقاب کرنے کا اتنا اچھا موقع شاید ہمیں پھر کبھی نہ مل سکے!‘‘۔
انہوں نے دھیرے سے سر ہلاکر میری تائید کی۔ ’’میں اور تم، دونوں اس معاملے میں بے بس ہیں۔ اپنا فرض ایمان داری سے ادا کرنے کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ہاں امید اور دعا ضرور کرسکتے ہیں کہ یہ بیش بہا اطلاع ملنے پر صاحبانِ اقتدار ہنگامی بنیادوں پر آبدوز کی خریداری پر آمادہ ہوجائیں‘‘۔
ہم دونوں کے درمیان کچھ دیرخاموشی رہی۔ پھر مجھے یاد آیا کہ نشے کی حالت میں سچن کی زبان سے برآمد ہونے والی سچائی پر بھی ان سے تبادلہ خیال کرنا ہے۔ ’’سر، میں نے سچن کا ایک بہت بڑا جھوٹ پکڑا ہے، جس سے اب تک کا تمام تر تعاون مشکوک ہوگیا ہے‘‘۔
انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’میں اس سے بار بار پوچھتا تھا اور وہ ہر بار کہتا تھا کہ کموڈور نیل کنٹھ کا دلّی جانے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اس نے کل شام بھی یہی کہا تھا۔ لیکن امریکی شراب کے نشے میں دھت ہوکر اس نے اگل دیا کہ اس کا باس پرسوں یعنی منگل وار کو بذریعہ ٹرین راجدھانی جائے گا!‘‘۔
افتخار صاحب نے میری زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ غور سے سنا اور پھر قدرے تشویش سے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے اس کی مزاحمت ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ لیکن اب وہ ہمارے شکنجے میں اتنی بری پھنس چکا ہے کہ وہ ہماری مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتا۔ ایسا کرو تم ایک بار پھر اس کا ٹینٹوا دباکر اس کی اوقات یاد دلاؤ اور اسے ذہن نشیں کراؤ کہ ہمیں چکر دینے کی کوشش کا کتنا برا انجام ہو سکتا ہے‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے سچن کی گوشمالی کے لئے مجھے کچھ مشورے دیئے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں ان کے ماہرانہ مشوروں کو بھرپور انداز میں استعمال میں لاؤں گا۔ کچھ دیر مزید تبادلہ خیال کرنے کے بعد وہ واپسی کے راستے پر چل دیئے۔ لگ بھگ نصف گھنٹے بعد جب میں جھیل کے بند کے قریب پہنچا تو وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ میں نے ایک بار پھر گھوڑا گاڑی بھاڑے پر لی اور ماتھیرن ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ مجھے وہاں بھی افتخار صاحب کہیں نظر نہ آئے۔
نیرل قصبے جانے والی آخری ٹرین روانہ ہونے میں ابھی لگ بھگ دو گھنٹے کا وقت باقی تھا۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک گھوڑے پر سوار ہوکر گرد و نواح کے پرفضا مقامات کا چکر لگایا اور ایک ڈھابے سے کھانا کھایا۔ لائٹ ٹرین میں نیرل ریلوے اسٹیشن واپسی تک اندھیرا چھا چکا تھا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ کولھا پور سے بمبئی جانے والی ایک ایکسپریس ٹرین آئندہ نصف گھنٹے میں پہنچنے والی ہے۔ میں ٹکٹ خرید کر ایک طرف جا بیٹھا۔
بمبئی پہنچ کر ایک آٹو کے ذریعے میں اپنے گھر پہنچا تو رات کا پہلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ تاہم سچن سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے میرا اسی وقت نیوی نگر پہنچنا ضروری تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی پیاری ٹیکسی کو نیند سے جگایا اور کافی تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے سچن کے کوارٹر پہنچ گیا۔
وہ یقیناً مطمئن ہوچکا ہوگا کہ اب میں نہیں آؤں گا۔ لیکن مجھے اس کے تاثرات میں تعجب کی جھلک دکھائی دی۔ البتہ وہ میرے مزاج کی برہمی بھانپنے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اس کی نشست گاہ میں پہنچ کر میں نے ریوالور کی نال اچانک اس کی کھوپڑی پر رکھ کر گھوڑا پیچھے ہٹایا تو اس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔
وہ بمشکل بول پایا۔ ’’یہ… یہ… بھگوان کے لئے…‘‘۔
میں نے ڈپٹ کر اس کی بات کاٹی۔ ’’لگتا ہے تم کو اپنی زندگی سے پریم نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، میرا کام تو لگ بھگ پورا ہو ہی چکا ہے۔ اب تم نرکھ کا ٹکٹ کٹواؤ!‘‘۔
میرے لہجے میں شاید کچھ زیادہ ہی گرمی تھی۔ بری طرح گھگھیاتے ہوئے اس نے التجا کی۔ ’’مم… مم… میریگلتی تو بتادو…۔ میں نے تو تمہاری ہر آگیا کا پالن کیا ہے!‘‘۔
میں نے بدستور خوں خوار لہجے میں کہا۔ ’’میں نے تمہیں شروع میں ہی خبردار کیا تھا کہ مجھے دھوکا دینے کی کوشش کی تو تمہارا بہت برا انجام ہوگا۔ لیکن لگتا ہے تم نے میری بات کو مذاق سمجھا تھا‘‘۔
یہ سن کر اس نے جلدی سے کہا۔ ’’پرنتو میں نے تو تم کو کوئی دھوکا نہیں دیا… سوگند لے لو!‘‘۔
میںنے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ’’سوگند نہیں، تیرے پران لینے ہیں مجھے۔ گولی اندر، بھیجہ باہر!‘‘۔ اس کے ساتھ ہی میں نے یوں ظاہر کیا جیسے میں ٹریگر پر دباؤ بڑھا رہا ہوں۔ اس کا چہرہ یک لخت سفید پڑ گیا اور وہ جان بخشی کی فریادکرتے ہوئے باقاعدہ رونے لگا۔ اس دوران وہ اپنا قصور بھی پوچھ رہا تھا۔
میں نے ریوالور کی نال اس کی پیشانی پر مزید گاڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں نے کل رات تم سے سوال کیا تھا کہ تمہارا باپ، نیل کنٹھ کب دلّی جائے گا۔ یاد ہے تم نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment