قیصر روم ہرقل نے ایک نصرانی عرب کو جس کا نام طلیعہ بن ماران تھا کو بلا کر اس کے واسطے کچھ انعام مقرر کیا اور کہا کہ تو اسی وقت یثرب (مدینہ طیبہ) کی طرف روانہ ہو جا اور وہاں پہنچ کر مسلمانوں کے امیر المؤمنین عمرؓ بن خطاب کے قتل کی کوئی تدبیر سوچ کر انہیں انجام تک پہنچا دے۔
اس نے اس کا وعدہ کیا اور سامان سفر تیار کر کے مدینہ میں پہنچ کر آپؓ کے قتل کی فکر میں مدینہ طیبہ کے قریب عوالی کے علاقہ میں چھپ گیا۔ حضرت عمرؓ یتیموں کے اموال اور بیواؤںکے باغات کی حفاظت اور خبرگیری کے لیے مدینہ طیبہ سے باہر تشریف لائے تو یہ نصرانی ایک گنجان درخت پر چڑھ کر پتوں کی آڑ میں بیٹھ گیا۔ آپؓ اتفاق سے اسی درخت کے قریب آکر ایک پتھر کے تکیہ پر سر رکھ کر لیٹے اور سو گئے۔
اس شخص نے چاہا کہ میں اتر کر اپنا کام پورا کرلوں تو اچانک جنگل سے ایک درندہ آکر آپؓ کے چاروں طرف گھومنے لگا اور آپؓ کے قدموں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا اور ایک غیبی ہاتف نے آواز دی یا عمر! یعنی اے عمر! چونکہ آپؓ نے عدل و انصاف کیا ہے، اس لیے آپ مامون ہوگئے۔ جس وقت آپ کی آنکھ کھلی درندہ چلا گیا۔ یہ نصرانی درخت سے اترا اور حضرت عمرؓ کے پاس آکر آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر کہنے لگا: میرے ماں باپ اُس پر قربان! جس کی حفاظت کائنات کے درندے کرتے ہیں، جس کی صفات آسمان کے فرشتے اور جس کی تعریف جہان کے جن کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا تمام قصہ اور ارادہ بیان کیا اور آپ کے ہاتھ پر اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭