فرشتوں کی عجیب دنیا

عرش خداوندی اٹھانے والے فرشتے
حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
(ترجمہ) اس روز آپ کے رب کا عرش آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقہ آیت نمبر 17)
(حدیث) حضرت عباسؓ بن عبد المطلب (آپؐ کے چچا محترمؓ) مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (یہ) فرشتے پہاڑی دنبوں کی شکل میں ہوں گے۔ (عبدبن حمید، دارمی، ابویعلی، ابن منذر، ابن خزیمہ، ابن مردویہ، حاکم وصححہ فی کتاب الردعلی الجہمیہ)
جسموں کی طوالت اور چوڑائی:
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حاملین عرش کے سینگ ہیں، جن کی بلندیاں ایسی ہیں جیسے نیزے کی بلندی ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاؤں کے ابھرے ہوئے تلوے سے لے کر ٹخنے تک پانچ سو سال چلنے کا فاصلہ ہے اور اس کے ناک کے سرے سے لے کر ہنسلی کی ہڈی تک پانچ سو سال چلنے کا سفر ہے اور اس کی ہنسلی کی ہڈی سے لے کر پستان تک پانچ سو سال (کا سفر) ہے۔ (عثمان بن سعید دارمی)
(فائدہ) اس حدیث میں جو پانچ سو سال کی مثال دی گئی ہے۔ یہ دنیاوی پانچ سو سال نہیں ہیں، بلکہ آخرت کے پانچ سو سال ہیں، جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ان میں صرف ایک فرشتہ کے پاؤں ساتویں زمین سے نیچے ہیں اور عرش اس کے کندھے پر ہے۔
(حدیث) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
مجھے اجازت فرمائی گئی ہے کہ میں ایسے فرشتے کی بات بتلاؤں، جس کے پاؤں ساتویں زمین سے بھی گزر گئے ہیں اور عرش (خداوندی) اس کے کندھوں پر ہے، وہ یہ کہہ رہا ہے: ’’سبحانک این کنت و این تکون‘‘ (دارمی، ابو یعلی بسند صحیح)
(خدایا! آپ کی ذات پاک ہے، آپ جہاں تھے اور جہاں ہیں اور ہوں گے)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
مجھے اجازت فرمائی گئی ہے کہ میں ایک ایسے فرشتہ کے متعلق کچھ بتلاؤں جو عرش کے اٹھانے والوں میں (شامل) ہے، اس کے پاؤں سب سے نچلی زمین میں ہیں، اس کے سینگ پر عرش ہے اور اس کے کان کی لو سے اس کے کندھے تک کا فاصلہ سات سو سال تک پرندہ کے اڑنے کے برابر ہے وہ فرشتہ یہ کہہ رہا ہے’’آپ کی ذات پاک ہے آپ جہاں بھی ہیں‘‘۔ (ابوالشیخ (منہ) (476) ابوداؤد 4747، حلیۃ الاولیاء 158/3، مجمع الزوائد 135/8,80/ مطالب عالیہ 3449، تاریخ بغداد 195/10، مشکوۃ 5728، کنز العمال 15154، 15155، 15157، 15158، اتحاف السادۃ 265,264/10، ابن کثیر 239/8، درمنثور 346/5، بدایہ والنہایہ 43,13/1، مشخۃ ابراہیم بن طہمان ص 72، مجمع البحرین 10/1، المثقی من الاوسط 47/ب، فوائد ابن شاہین 113/ب تاریخ ابن عساکر 1/232/2/12، امالی ابی عساکر مجلس 139، العلوص 78)
سابقہ حدیثوں میں فرشتوں کی تسبیح سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش خداوندی اٹھانے والے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات مبارک کہاں ہے، کیوں کہ رب تعالیٰ کے وجود کا کسی احساس نہیں ہوسکتا، وہ ادراک سے ماوراء ہے اور اپنی شان کے موافق عرش پر مستوی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment