محمد بن مالکؒ کہتے ہیں کہ میں بغداد گیا تاکہ قاری ابو بکر بن مجاہدؒ کے پاس کچھ پڑھوں۔ ہم لوگوں کی ایک جماعت ان کی خدمت میں حاضر تھی اور قرأت ہورہی تھی۔ اتنے میں ایک بڑے میاں ان کی مجلس میں آئے، جن کے سر پر بہت ہی پرانا عمامہ تھا، ایک پرانا کرتا تھا، ایک پرانی سی چادر تھی۔
ابو بکرؒ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے ان کے گھر والوں کی، اہل و عیال کی خیریت پوچھی۔ ان بڑے میاں نے کہا رات میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، گھر والوں نے مجھ سے گھی اور شہد کی فرمائش کی۔ شیخ ابو بکرؒ کہتے ہیں کہ میں ان کا حال سن کر بہت ہی رنجیدہ ہوا اور اسی رنج و غم کی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں نبی کریمؐ کی زیارت کی۔
حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: اتنا رنج کیوں ہے؟ علی بن عیسیٰ وزیر کے پاس جا اور اس کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ علامت بتانا کہ تو ہر جمعہ کی رات کو اس وقت تک نہیں سوتا جب تک کہ مجھ پر ایک ہزار مرتبہ درود نہ پڑھ لے اور اس جمعہ کی رات میں تو نے سات سو مرتبہ پڑھا تھا کہ تیرے پاس بادشاہ کا آدمی بلانے آگیا تو وہاں چلا گیا اور وہاں سے آنے کے بعد تو نے اس مقدار کو پورا کیا۔ یہ علامت بتانے کے بعد اس سے کہنا کہ اس نومولود کے والد کو سو دینار (اشرفیاں) دیدے تاکہ یہ اپنی ضروریات میں خرچ کرلے۔
قاری ابو بکرؒ اٹھے اور ان بڑے میاں نومولود کے والد کو ساتھ لیا اور دونوں وزیر کے پاس پہنچے۔ قاری ابوبکرؒ نے وزیر سے کہا: ان بڑے میاں کو حضورؐ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وزیر کھڑے ہوگئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے قصہ پوچھا۔ شیخ ابو بکرؒ نے سارا قصہ سنایا، جس سے وزیر کو بہت ہی خوشی ہوئی اور اپنے غلام کو حکم کیا کہ ایک توڑا نکال کر لائے (توڑا ہمیانی تھیلی جس میں دس ہزار کی مقدار ہوتی ہے) اس میں سے سو دینار اس نومولود کے والد کو دیئے۔ اس کے بعد سو اور نکالے تاکہ شیخ ابو بکرؒ کو دے۔ شیخ نے ان کے لینے سے انکار کیا۔
وزیر نے اصرار کیا کہ ان کو لے لیجئے، اس لئے کہ یہ اس بشارت کی وجہ سے ہے جو آپ نے مجھے اس واقعہ کے متعلق سنائی۔ اس لئے کہ یہ واقعہ یعنی ایک ہزار درود والا ایک راز ہے، جس کو میرے اور حق تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر سو دینار اور نکالے اور یہ کہا کہ یہ اس خوشخبری کے بدلے میں ہیں کہ تم نے مجھے اس کی بشارت سنائی کہ نبی کریمؐ کو میرے درود شریف پڑھنے کی اطلاع ہے اور پھر سو اشرفیاں اور نکالیں اور یہ کہا کہ یہ اس مشقت کے بدلے میں ہے جو تم کو یہاں آنے میں ہوئی اور اسی طرح سو سو اشرفیاں نکالتے رہے یہاں تک کہ ایک ہزار اشرفیاں نکالیں، مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم اس مقدار یعنی سو دینار سے زائد نہیں لیں گے، جن کا حضور اقدسؐ نے حکم فرمایا۔ (بدیع)
یا رب صل وسلم دائما ابدا
علی حبیبک خیر الخلق کلھم
٭٭٭٭٭