مرزا فخرو کی وزیرخانم سے شادی کی خواہش سے بادشاہ آگاہ تھا

حمام کا اوپری درجہ حسب معمول راہداریوں سے گھرا ہوا ایک متوسط ایوان تھا، جس میں ہلکی سبز روشنی ہو رہی تھی۔ بیچو بیچ نہر بہ رہی تھی، جس میں ایک چھوٹا سا فوارہ لونگ اور دار چینی کے عطر کی ہلکی خوشبو بکھیر رہا تھا۔ سنگ مرمر کے سفید و سیاہ فرش پر کوئی فرش یا قالین نہ تھا۔ ایک جانب کو آبنوس کا ایک بھاری اور چاندی سے منقش پایوں والا تخت تھا، جس پر ایک طرف جائے نماز اور اس کے ساتھ چاندی کے رحل پر کلام پاک کا ایک بڑا، مطلا اور مجلد نسخہ اور ایک طرف اعلیٰ حضرت کی سبز جامہ وار کی خفتان اور کار چوبی چو گوشیہ ٹوپی دھری تھی۔ آبنوسی چوکی سے کچھ ہٹ کر ایک مرصع چھپر کھٹ جس کے پائے چاندی کے اور پردوں کے ڈنڈے منقش اور بھاری پیتل کے تھے، مخمل دو خوابا کے بڑے بڑے تکیوں کا سہارا لئے ہوئے بادشاہ سلامت پلنگ پر نیم دراز تھے۔ زمرد کی تسبیح ہاتھ میں، آنکھیں نیم باز، انگلیاں آہستہ حرکت کر رہی تھیں۔ مرزا فخرو کے پاؤں کی آہٹ پہچان کر انہوں نے آنکھیں کھولیں اور شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا: ’’اے آمدنت باعث دلشادی ما۔ آؤ مرزا فخرو، بیٹھو‘‘۔
چونکہ بادشاہ کے سامنے کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی، اس لئے پورے ایوان میں بیٹھنے کے لئے کوئی صندلی یا کرسی کی قسم کی شے نہ تھی۔ بیگمات اور شاہزادے اعلیٰ حضرت کا اشارہ سمجھ کر پلنگ کی پائینتی یا نماز کی چوکی پر ٹک جاتے تھے۔ اس بار حضور انور نے آنکھ کے اشارے سے فرمایا کہ میری پائینتی بیٹھو۔ مرزا فخرو نے تین تسلیمیں کیں اور حضور کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر پائینتی کی پٹی پر ٹک گئے۔ پٹی خود ہی کوئی ایک بالشت چوڑی تھی۔ اس پر نرم گدے کا فرش، بیٹھنے میں کوئی زحمت نہ تھی۔ مرزا فخرو بہادر نے سر جھکا کر بادشاہ کے پاؤں ہلکے ہلکے دبانے شروع کئے۔
’’اماں مرزا فتخ الملک‘‘۔ اچانک بادشاہ عالم آگاہ نے مہر سکوت توڑی۔ ’’کہیں پیغام بجھوانے کے بارے میں رائے تمہاری کیا ہے اور کیا عمل ہے؟‘‘۔
مرزا فخر و سناٹے میں آگئے۔ حضور کو کیسے خبر لگ گئی، انہوں نے گھبرا کر دل میں کہا۔ یہ باتیں تو احترام الدولہ کے سپرد تھیں۔ لیکن حضور کے استفسار میں جو اشارہ تھا، اسے نظر انداز کر کے جواب دیا جائے تو… خاقان معظم خفا تو نہ ہوں گے؟ ایک لحظہ توقف کر کے میرزا فتح الملک نے فرمایا: ’’ابھی تک تو ایسے تمام معاملات خاقان کامگار کے سایہ عاطفت اور رہنمائی و بصیرت میں طے ہوتے رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے ایک پل پھر توقف کیا۔ ’’دیگر یہ کہ دودمان تیموریہ میں شاہی گھرانے سے پیغام کبھی کسی کے وہاں جاتا نہیں ہے‘‘۔
’’درست‘‘۔ بادشاہ نے متین لہجے میں کہا۔ ’’ہماری لڑکیوں کے لئے درخواستیں آتی ہیں جو قبول یا نا قبول ہوتی ہیں… یا خاندان چغتا کا سربراہ جو سریر آرائے سلطنت بھی ہوتا ہے، کبھی کبھی خود کوئی مناسب شوہر تجویز کر دیتا ہے‘‘۔
’’پیر و مرشد درست فرماتے ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ ہماری بیٹیوں کے حسب مرتبہ بر نہ ملا تو ان مخدرات نے ناکتخدائی ہی کو اپنے لیے پسند کیا ہے‘‘۔
’’لڑکوں کے لیے باہر کی کسی عفیفہ پر ہماری نظر انتخاب کبھی پڑے تو ہم اسے نکاحی کر کے گھر لے آتے ہیں‘‘۔ بادشاہ نے مزید فرمایا۔
مرزا فتح الملک بہادر نے معاملے کو سمجھ لیا تھا، لیکن پاس ادب کے باعث صاف صاف بات کہنے سے گریز کر رہے تھے۔ آخر یہ احترام الدولہ کہاں رہ گئے؟ انہوں نے دل ہی دل میں خود سے الجھتے ہوئے کہا۔
’’والدہ مرزا ابوبکر بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ نے دارالبقا کی راہ لے کر فدوی کو بہت تنہا کر دیا‘‘۔ انہوں نے رکتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہم جانتے ہیں کہ حاتم زمانی دل تمہارا نہیں موہ سکیں‘‘۔ بادشاہ نے ٹھہر ٹھہر کر ہر لفظ پر تھوڑا زور دے کر کہا۔ ’’لیکن مرزا الٰہی بخش ہمارے معتمد ہیں‘‘۔
’’پیر و مرشد کی رائے عالی پر روشن ہے کہ میں خلاف شرع کوئی کام نہیں کرتا‘‘۔ مرزا فتح الملک بہادر کے لہجے میں تھوڑی سی خشکی تھی۔ ’’اور نہ ہی میں متوسلین اپنے میں سے کسی کو خود سے منفک کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
بادشاہ دیں پناہ کے چہرے پر کچھ اطمینان کی سی لہر کی روشنی پھیلی۔ لیکن ابھی انہوں نے سلسلۂ کلام دوبارہ آغاز نہ کیا تھا کہ حمام کے دروازے پر آہٹ ہوئی اور چوبدار کی بلند لیکن عجب طرح کی شیریں اور نرم آواز سنائی دی: ’’احترام الدولہ حکیم محمد احسن اللہ خان بہادر‘‘۔
بادشاہ نے تالی بجائی۔ تالی کے بجتے ہی پردہ ہٹا اور حکیم احسن اللہ خان نے اندر داخل ہوکر کورنش ادا کی۔ پھر تین تسلیمات بجا لائے اور ناف پر ہاتھ باندھ کر بالکل سیدھے کھڑے ہو گئے، اس طرح کہ ان کی نگاہ روبرو لیکن بادشاہ کے پیچھے دیوار پر کسی جگہ جمی ہوئی تھی۔
’’احترام الدولہ بہادر‘‘۔ بادشاہ نے شگفتہ لہجے میں کہا۔ ’’اماں تم بہت خوب آئے۔ اور شاید جس امر کو تم گوش گزار ہمارے کرنا چاہتے تھے وہی امر ابھی ہمارے اور ولی عہد سوئم بہادر کے درمیان معرض گفتگو میں آگیا‘‘۔
حکیم احسن اللہ خان پل بھر میں معاملے کو سمجھ گئے۔ اعلیٰ حضرت کو حویلی کے حالات کی پوری خبر رہتی ہے۔ انہیں شاید پرچہ ہی گزرا ہو کہ ولی عہد سوئم بہادر فلاں بیگم سے تعلق قائم کرنے کے خواستگار ہیں۔ قدرتی بات تھی کہ بادشاہ پورے حالات پر مطلع ہونا چاہیں۔ حکیم احسن اللہ خان نے نگاہیں اسی طرح روبرو رکھے ہوئے عرض کیا: ’’روشن ضمیری پیر و مرشد کی ایک عالم پر ظاہر و باہر ہے‘‘۔
’’تو کیا تم پیغام بھجوانے کی اجازت طلب کرتے ہو؟‘‘۔ بادشاہ نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا۔
مرزا فتح الملک بہادر چونک کر کچھ کہنے ہی والے تھے کہ انہوں نے انتہائی فراست سے کام لیتے ہوئے اپنی زبان روک لی۔ خطاب حضور انور کا حکیم صاحب کی طرف تھا، میرا مداخل ہونا بہت بدتہذیبی کی بات تھی۔ انہوں نے دل میں کہا اور احترام الدولہ کی طرف توقع بھری نگاہوں سے دیکھا۔
’’نیاگان ظل سبحانی کی قائم کردہ رسوم سے سر مو تجاوز ہو تو ہم گردن زدنی ہوں گے‘‘۔ حکیم احسن اللہ خان نے مؤدب لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔
’’مگھم کیوں کہتے ہو، مفصلاً و مشرحاً بیان کرو‘‘۔ بادشاہ کا لہجہ اب بھی ذرا تیز تھا۔
’’عالم پناہ، میں تھوڑی سی گستاخی کا مرتکب ٹھہروں تو پہلے ہی سے طالب عفو ہوں۔ جن مخدرہ پر صاحب عالم و عالمیان ولی عہد سوئم بہادر کی نگاہ انتخاب پڑی ہے، وہ بیوہ ہیں رامپور ایک صاحب حیثیت شریف سید زادے کی۔ ٹھگوں کے دست ظلم نے انہیں تابگور پہنچا دیا اور یہ بی بی اب دوبارہ اپنے وطن مالوف دہلی واپس آگئی ہیں‘‘۔
’’ان کے حالات کا ہمیں علم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اب وہ وفا و عفت کے حصن حصین سے قدم باہر نہ نکالیں گی‘‘۔
’’یہ اشارہ تھا وزیر خانم کی اوائلی زندگی کے حالات کی طرف، اور اگرچہ بادشاہ کے خیال کے علی الرغم مرزا فتح الملک کا خیال تھا کہ وزیر خانم ہمیشہ باوفا اور عفیفہ رہی تھیں، انہوں نے اس موقعے پر سکوت ہی بہتر سمجھا۔
’’ان بی بی کی خواہر بزرگ یہاں دلی میں مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی کو بیاہی ہیں۔ شریف اور مرفہ الحال لوگ ہیں۔ سب معاملات وہ طے کریں گی۔ مولوی صہبائی بیچ میں ہیں‘‘۔
’’اور نکاح؟‘‘۔
’’شہر ہی میں پڑھوا دیا جائے گا۔ یہاں سے کسی کو زحمت نہ کرنی ہو گی۔ خواہر بزرگ کی معیت میں ڈولا بحفاظت حویلی میمونہ میں آجائے گا‘‘۔
’’اچھا، مرزا فتح الملک بہادر کی یہی مرضی ہے تو سارے کام بحسن و خوبی اس حویلی کی شان کے موافق انجام پائیں‘‘۔ بادشاہ نے ایک لمحہ خاموش رہ کر کہا۔
مرزا فخرو نے باپ کی طرف تشکر بھری آنکھ سے دیکھا۔ احترام الدولہ نے کسی قرینے سے سمجھ لیا کہ اب باریابی ختم ہوئی۔ انہوں نے حسب معمول کورنش ادا کی، پھر تین تسلیمیں بجا لائے اور الٹے پائوں چلتے ہوئے حمام کے باہر ہوگئے۔
بادشاہ نے مرزا فخرو کے شانے ہلکے سے تھپتھپائے اور کہا۔ ’’بہت خوب۔ اللہ معکم‘‘۔
ولی عہد سوئم نے کھڑے ہو کر کورنش ادا کی اور پھر پلنگ کی پٹی پر ٹک کر باپ کے پائوں دبانے لگے۔ تھوڑی دیر میں بادشاہ کی آنکھ لگ گئی اور ولی عہد سوئم بھی حمام سے باہر چلے آئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment