محمد قاسم
تحریک انصاف کی گزشتہ چار سال سے برسر اقتدار ضلعی حکومت کیلئے پشاور شہر کی بحالی چیلنج بن گئی۔ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو جانے والی سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ضلعی حکومت نے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے جو رقم مختص کی ہے، وہ پشاور کی آبادی کے لحاظ سے فی کس 116 روپے بنتی ہے۔ جس پر شہری حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پشاور شہر کی 60 لاکھ سے زائد آبادی کے ترقیاتی بجٹ کو کم ترین سطح پر لا کر ضلعی حکومت نے صوبائی فنانس ایوارڈ سے امیدیں وابستہ کرلیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) کی وجہ سے تباہ حال پشاور شہر کی دوبارہ بحالی پر اربوں روپے خرچ آئے گا، جس کیلئے ضلعی حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات شہرام تراکئی کو نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ جماعت اسلامی کے سابق وزیر عنایت اللہ کی جانب سے کی گئی اصلاحات کو جاری رکھنا ان کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔ گزشتہ روز ضلعی ناظم پشاور محمد عاصم خان نے ضلع پشاور کا مالی سال 2018-19ء کیلئے 11 ارب 27 کروڑ 71 لاکھ 43 ہزار 450 روپے کا سر پلس بجٹ پیش کیا۔ اس میں صوبائی مالیاتی کمیشن سے ضلع پشاور کو 10 ارب 55 کروڑ 11 لاکھ 33 ہزار 820 روپے، لوکل فنڈ سے 64 کروڑ 59 لاکھ 86 ہزار 96 روپے، ضلع کونسل گرانٹ سے 8 کروڑ 1 لاکھ 934 روپے آمدنی متوقع ہے، جو کل 11 ارب 27 کروڑ 71 لاکھ 43 ہزار 450 روپے بنتی ہے۔ اسی طرح ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 کروڑ، غیر ترقیاتی اخراجات کا 10 ارب 48 کروڑ 11 لاکھ 33 ہزار 820 روپے، جبکہ ضلع گرانٹ سے غیر ترقیاتی اخراجات پر 8 کروڑ 1 لاکھ 934 روپے تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جو کل اخراجات 10 ارب 63 کروڑ 12 لاکھ 34 ہزار 754 روپے بنتے ہیں۔ لوکل فنڈ سے مرمت و ترقیاتی اخراجات کی مد میں 5 کروڑ87 لاکھ79 ہزار 563 روپے، غیر ترقیاتی اخراجات 57 کروڑ 58 لاکھ50 ہزار420 روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ دیگر محکموں کیلئے گرانٹ ایک کروڑ مختص کی گئی ہے اور لوکل فنڈ سے ٹوٹل اخراجات 64 کروڑ46 لاکھ 29 ہزار 983 روپے بنتے ہیں۔ ضلع ناظم نے مالی سال 2017-2018 ء کا نظرثانی شدہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ محصولات کا تخمینہ 11 ارب 30 کروڑ 99 لاکھ 2386 روپے ہے۔ جبکہ اخراجات کا تخمینہ 11 ارب 20 کروڑ 10 لاکھ 88 ہزار روپے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے مختلف شعبہ جات میں عوام کیلئے جدید سہولیات کی فراہمی کو اولین ترجیح رکھا۔ ضلعی اداروں کو فعال کرنے اور ضلعی حکومت کی آمدن بڑھانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ ضلعی حکومت کی ترجیحات کو صوبائی حکومت کے ساتھ ہر فورم پر اٹھایا اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کی۔ انہوں نے بتایا کہ 2017-18ء کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کا مسئلہ بھی صوبائی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پشاورکی تعمیر و ترقی، عوام کے مسائل حل کرنے اور جاری منصوبوں کو مکمل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان مسائل کے حل کیلئے جتنے وسائل مہیا ہیں ان کا استعمال ایمانداری سے ہو۔ ضلع ناظم محمد عاصم خان نے کہاکہ توانائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی حکومت نے چار رورل ہیلتھ سینٹرز اور 10 بنیادی مراکز صحت کو شمسی توانائی پر منتقل کردیا ہے، جس پر 4 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ سرکاری اسکولوں کے ٹاپ پوزیشن ہولڈر طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک کروڑ روپے کے لیب ٹاپ تقسیم کئے۔
نمک منڈی کے مقام پر ضلعی حکومت نے جدید فوڈ اسٹریٹ قائم کی۔ اس کے ساتھ ہی پشاور شہر کی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی جس پر 5 کروڑ 40 لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔ فوڈ سٹریٹ کے قیام سے ضلعی حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن بھی متوقع ہے۔
انہوں نے کہاکہ میونسپل انٹر کالج برائے گرلز شاہی باغ میں نئے بلاک کی تعمیر کیلئے 5 کروڑ مختص کئے۔ جبکہ سرکاری اسکولوں کے پوزیشن ہولڈر طلبا و طلبات کو انعامات، ضلعی سطح پر ٹاپ کرنے والے طلبا کو ایک لیب ٹاپ اور 35 ہزارر روپے جبکہ ہائر سیکنڈری ٹاپ کرنے والے طلبا و طالبات کو بھی 35 ہزار روپے دیں گے۔ صحت کی مد میں ادویات کی خریداری اور ویکسین کی فراہمی کا بجٹ 4 کروڑ سے 8 کروڑ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی حکومت آئس نشے کے عادی افراد کی بحالی اور ان کے علاج کیلئے جدید بحالی سینٹر دلہ ذاک روڈ پر بنائے گی، جس کیلئے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کئے ہیں۔ شہریوں کو جدید پارکنگ سہولیات کی فراہمی کیلئے پی ڈی اے کے تعاون سے ملٹی اسٹوری بلڈنگ کی تعمیر کا آغاز ہوگیا ہے اور یہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ایک لینڈ مارک منصوبہ ہے، جس پر 33 کروڑ روپے لاگت آئے اور یہ عمارت 8 ماہ میں مکمل ہو گی۔ اس کی پہلی دو منزلیں کمرشل مقاصد کیلئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پارکنگ کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ مقامی فوڈ انڈسٹری بھی ترقی کرے گی اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو سالانہ کروڑں روپے کی آمدن ہوگی۔
دوسری جانب ہیرٹیج ٹریل منصوبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گیا ہے۔ بیرونی قرضوں سے بنایا جانے والا یہ پروجیکٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ لیکن ضلعی حکومت کے پاس اس کیلئے کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی رقم موجود ہے۔ پشاور کے شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت پنجاب میں بھی خیبرپختون والا بلدیاتی نظام لانا چاہتی ہے، لیکن پشاور کے عوام موجودہ بلدیاتی نظام سے تنگ آ چکے ہیں، جس میں ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ خصوصاً صفائی ستھرائی اور آب رسانی کے نظام مزید تباہ ہو گئے ہیں۔ جبکہ بی آر ٹی منصوبے سے پشاور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے، اس کی بحالی بھی بلدیاتی اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی سمیت بلدیاتی ادارے ہائیکورٹ میں یقین دہانی کے باوجود جولائی تک رابطہ سڑکیں بحال کرنے میں ناکام رہے اور ابھی بھی بی آر ٹی منصوبے کی تعمیرات کے قریب سے گزرنے والی سڑکیں بند ہیں، جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑ رہا ہے۔ جن سڑکوں پر ٹریفک کو موڑ دیا گیا ہے اب وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جن کی تعمیر و مرمت پر اربوں روپے خرچ آئے گا۔
٭٭٭٭٭