نمائندہ امت
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج لینے کیلئے حکومت سرگرم ہوگئی۔ منی بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں قرض لینے کیلئے ہی بڑھائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان خطاب کر کے قوم کو اعتماد میں لے سکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے سے قسطوں کی ادائیگی پر آج سے مذاکرات شروع ہوں گے، جبکہ وفد ایک ہفتہ قیام کے دوران پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کا جائزہ بھی لے گا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق اسلام آباد پہنچنے والا آئی ایم ایف کا وفد (آج) جمعہ کو وزیر خزانہ اور وزیر پلاننگ کمیشن سے ملاقات کرے گا۔ آئی ایم ایف وفد ملکی معیشت کا جائزہ لینے کیلئے ایک ہفتہ پاکستان میں قیام کرے گا۔ جس کی سربراہی ہیرالڈ فنگر کر رہے ہیں۔ پاکستانی وفد میں سیکریٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری اقتصادی امور ڈویژن شریک ہوں گے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کی تیاری شروع کر دی ہے اور امکان ہے کہ مذاکراتی مشن پاکستان کی درخواست پر بھی غور کرے گا۔ پاکستان کو رواں سال 9 ارب ڈالرز کی فنانسنگ درکار ہے۔ اور منی بجٹ کے بعد پاکستان کے آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج لینے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ بیل آئوٹ پیکیج لینے کیلئے کیا گیا ہے۔ حکومت نے منی بجٹ میں اضافی ٹیکس اور پی ایس ڈی پی میں کمی کی ہے۔ اخراجات میں بھی کمی کی ہے۔ لیکن یہ سب اقدامات کرنے کے باوجود بھی قرضوں کی ادائیگی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لیا تو ممکن ہے وزیر اعظم عمران خان عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے خطاب کریں۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کے حوالے سے آگاہ کریںگے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قرضوں (گرانٹس) کے تین معاہدے ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے ملنے والے قرضوں کی رقم نہیں بتائی۔ جیسا کہ پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا قرض دے گا۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اتوار کو سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان آئے گا، جو یہ تمام معاملات طے کرے گا۔ پاکستان کیلئے اب آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات کرنے میں آسانی ہوگی۔ سعودی عرب کے دورے کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی ملاقات اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوگی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے یہ خبریں عام ہوئیں کہ سعودیہ نے پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا قرض دیا ہے، کیونکہ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ فوری طور پر ملکی نظام چلانے کیلئے نو ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، جس کیلئے قرضہ لینا پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ پارلیمنٹ کی مشاورت کیا جائے گا۔ دوسری جانب سیالکوٹ میں خواجہ آصف کا مقابلہ کرنے والے عثمان ڈار نے یہ خبر اُڑائی کہ سعودی عرب نے 10 ارب ڈالرز دینے کی ہامی بھرلی ہے۔ ایک معروف ٹی وی اینکر نے بھی کہا کہ سعودیہ میں ان خبروں پر پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا گیا لیکن کوئی تردید بھی نہیں کی۔ اور اب پاکستان کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے گرانٹس کا نیا پیکج لے کر سعودی وفد پاکستان آرہا ہے۔ اس حوالے سے سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس قسم کے حساس معاملات میں رازداری اہم شرط ہوتی ہے۔ یہ خبر کیسے باہر آئی وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف کے تمام پروگروام ہم مکمل کرچکے ہیں۔ اب ہمیں ان کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ ان کا وفد ہر چھ ماہ کے بعد معاہدے کے آرٹیکل 4 کے تحت پاکستان آتا ہے۔ لیکن اس بار یہ وفد 9 ماہ کے بعد آرہا ہے اور اس کا مقصد اس بات کی مانیٹرنگ کرنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی کی تیاری کس طرحکر رہا ہے‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے اس وفد کے ساتھ نئے قرضوں کے معاہدے پر بات چیت کا امکان کم ہے۔ ’’امت‘‘ کو وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ اسلامی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک قرض کی منظوری کیلئے نئی حکومت کا منتظر تھا۔ خلیجی ممالک پاکستان کی نئی حکومت کو موجودہ مالی بحران سے نکالنے میں مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ڈی پی کا قرضہ خام تیل کی درآمد اور زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کی نئی حکومت آئی ایم ایف کے علاوہ مالی بحران سے نکلنے کیلئے دیگر آپشن استعمال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے بانڈز جاری کرنے کی بھی تجویز ہے۔ پاکستان کو طویل المدتی قرضوں کی واپسی کیلئے فوری طور پر9 ارب ڈالر درکار ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ قرضے اسی رفتار سے لئے جاتے رہے تو پاکستان کا موجودہ قرضہ آئندہ چند ماہ میں 95 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔ سابق حکومت نے گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے عرصے میں چین سے 1.5 ارب ڈالر قرضہ لیا۔ دستاویزات کے مطابق چین نے اورنج لائن لاہور منصوبہ کیلئے334 ملین ڈالر، سکھر ملتان کیلئے 691 ملین ڈالر، حویلیاں ٹھاکور کیلئے273 ملین اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے88 ملین ڈالر قرضہ فراہم کیا۔ پاکستان نے مجموعی طور پر جولائی 2017 سے اپریل2018ء تک دوطرفہ کثیرالمقاصد کمرشل بینکوں اور بانڈز کی مد میں 9.1 ارب ڈالر قرض لیا۔ 1.9 ارب ڈالر قرضہ اور گرانٹس کی مد میں لئے گئے۔ دستاویزات میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال چین سے1.5 ارب ڈالر، فرانس سے16 ملین ڈالر، 2.67 ملین ڈالر جرمنی،59 ملین ڈالر جاپان، 0.44 ملین ڈالرکوریا، 2.14 ملین ڈالر کویت اور 22.50 ملین ڈالر سعودی عرب سے لئے گئے۔
٭٭٭٭٭