سفیان ثوریؒ امراء و سلاطین کے یہاں جانا پسند نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ آپؒ خلیفہ مہدی کے دربار میں بلائے گئے تو کسی قسم کا شاہی آداب نہیں برتا، مہدی نے مذاقاً کہا کہ آپ مجھ سے دور دور رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچا سکتا ہوں، اب تو آپ میرے قبضے میں ہیں، جیسا میں چاہوں، آپ کے ساتھ معاملہ کروں۔
سفیان ثوریؒ نے جواب دیا جو حکم تم میرے بارے میں دو گے، وہی حکم قادر مطلق تمہارے بارے میں دے گا۔ سفیان ثوریؒ کا یہ کہنا ہی تھا کہ مہدی کے خادموں نے اس ’’بے ادبی‘‘ پر سفیان ثوریؒ کو سزا دینی چاہی، لیکن مہدی نے کہا نہیں! میں بزرگوں کو قتل کرکے خیر و برکت سے محروم ہونا نہیں چاہتا اور اسی وقت کوفہ کے عہدہ قضاء کا پروانہ ان کے سپرد کردیا اور ان کو یہ آزادی بھی دی کہ ان کے فیصلوں پر کسی قسم کی بھی کوئی مداخلت نہ کی جائے گی۔
( مروج الذہب للمسعودی صفحہ نمبر 207ج 6)
جھوٹ سے گریز!
ایک بادشاہ شکار کرنے نکلا اور ایک ہرن کے تعاقب میں بہت دور نکل گیا، ہرن تیر کھا کر گھنے جنگل میں غائب ہوگیا، بادشاہ اپنی ضد کی وجہ سے چاہتا تھا کہ تیر خوردہ زخمی ہرن کو شکار ضرور کرے، وہاں پر ایک خدا رسیدہ درویش درخت کے سائے میں مصروف عبادت تھا۔
بادشاہ اپنا گھوڑا لے کر اس کے پاس پہنچا اور گھوڑے سے اتر کر درویش کے پاس گیا اور پوچھا کیا کوئی ہرن ادھر آیا ہے؟
درویش نے سوچا اگر ہرن کا پتہ دوں تو ہرن کی جان جاتی ہے اور اگر یہ کہوں کہ میں نے ہرن کو نہیں دیکھا تو خواہ مخواہ جھوٹ بولنا پڑے گا جوکہ گناہ کبیرہ ہے۔
درویش نے کچھ سوچ کر کہا کہ بادشاہ! دیکھنا آنکھ کا کام ہے، لیکن وہ بول نہیں سکتی، بولنا زبان کا کام ہے، لیکن وہ دیکھ نہیں سکتی، آنکھوں نے ہرن کو دیکھا ہے، لیکن وہ کیسے بتا سکتی ہے، بتانا تو زبان کا کام ہے، مگر زبان نے دیکھا نہیں، لہٰذا وہ کیسے بتائے، بادشاہ درویش کا جواب سن کر لاجواب ہوگیا اور آئندہ شکار کھیلنے سے توبہ کرلی۔ ( مخزن صفحہ نمبر 354)
تقریر اور تکرار!
مشہور امام ابن سماکؒ ایک جگہ تقریر کر رہے تھے، ان کا ایک ’’ غلام‘‘ بھی ان کی تقریر سن رہا تھا، وہ تقریر سے فارغ ہو کر گھر آئے اور ’’ غلام‘‘ سے پوچھا، میری تقریر کیسی رہی؟ انہوں نے جواب دیا تقریر تو بہت اچھی تھی، مگر ایک بات کو بار بار دہرانا پسند نہ آیا، ابن سماکؒ نے کہا کہ میں بار بار اس لئے دہرا رہا تھا تاکہ جو نہیں سمجھے، وہ سمجھ جائیں۔
’’غلام‘‘ نے کہا جب تک آپ نہ سمجھنے والوں کو سمجھاتے رہے، اس وقت تک سمجھنے والے اکتاتے رہے۔
(عیون الاخبار صفحہ نمبر 178 بحوالہ کتابوں کی درسگاہ میں ص 101)
٭٭٭٭٭