اسلام قبول کرنےوالی امریکی فوجی

اسلام کا یہ عقیدہ بھی مجھے عین عقلی معلوم ہوا کہ موت جسم پر وارد ہوتی ہے، روح نہیں مرتی اور انسان کے ایک ایک لمحے کا حساب محفوظ رکھا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا، جب لازماً اس کے اعمال کا حساب ہو گا اور اس کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔ قرآن کے مطالعے اور حسین حریری سے گفتگو کے نتیجے میں جب اسلام کی حقیقت میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے اسے عین عقل اور وجدان کے مطابق پایا تو ایک روز میں نے اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ حسین بہت ہی خوش ہوا۔ اس نے مجھے تین بار کلمہ شہادت پڑھایا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا، اور اس طرح میں اسلام کی مبارک و مقدس چھتری تلے آ گئی۔ اس نعمت پر میں خدائے قدوس کا جس قدر شکر ادا کروں، کم ہے۔
اس کے بعد جلد ہی میں اور حسین باہم شریک حیات بن گئے۔ میری زندگی ایک نئے انقلاب سے روشناس ہوئی۔ میں نے پنج گانہ نماز شروع کر دی۔ حسین نے مجھے سادہ اور سفید رنگ کے اسکارف خرید کر دیئے۔ میں سرکاری فرائض سے فارغ ہو کر رہائش گاہ پر آتی تو سیاہ گاؤن پہن لیتی اور سر پر سیاہ اسکارف باندھ لیتی۔ اس طرح میں دیکھنے میں بالکل سعودی خواتین کی طرح نظر آتی۔ ایک روز میں سفید اسکارف باندھ کر کھڑی تھی۔ امریکی فوجی ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ ان میں بعض نے تعجب سے کہا: ’’ادھر یہ نن کہاں سے آ گئی؟‘‘
میں نے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا۔ واقعی اس لباس میں، میں ہوبہو ایک نن نظر آ رہی تھی۔ ایک روز سیاہ اسکارف باندھ کر میں حسین کے ساتھ باہر گھوم رہی تھی کہ ہر شخص تجسس سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ تب میں نے ایک شخص کو روک کر کہا ’’میں اسٹاف سارجنٹ پیک ہوں، آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟‘‘ اس نے تعجب سے مجھے دیکھا اور کھسیانا ہو کر چل دیا۔ تاہم سرکاری فرائض کے دوران مجھے وہی صحرائی فوجی وردی پہننی پڑتی۔ میں نے اسکارف کے بارے میں متعلقہ افسر سے بات کی، لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔
قبول اسلام کے ایک ماہ کے بعد میں دوبارہ امریکہ آ گئی اور فورٹ پریگ کی چھاؤنی میں تعینات ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ ڈیوٹی کے دوران مجھے اسکارف اور لمبا ساتر لباس پہننے کی اجازت مل جائے۔ اس کے لیے میں فوجی ملازمین کے قانونی مشیر جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، تاکہ اپنے حقوق کے حوالے سے مجھے یہ رعایت حاصل ہو جائے، لیکن موصوف نے میرے اس نوعیت کے کسی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران میں مجھے پتا چلا کہ فوٹ پریگ سٹی میں چند مسلمان خواتین نے ایک اسلامی تبلیغی و سماجی ادارہ قائم کر رکھا ہے، جسے سسٹرز گروپ (Group Sisters) کہا جاتا ہے۔ میں بھی اس کی ممبر بن گئی اور اس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے لگی۔ اس کی ایک رکن خاتون کے خاوند نے ایک اسلامک کمیونٹی سینٹر قائم کر رکھا تھا اور خاصا باخبر آدمی تھا۔ اس خاتون نے اپنے خاوند سے میرے مسئلے کی بات کی اور موصوف نے بھاگ دوڑ کر ایسے قوانین کی نقل حاصل کر لی، جو ہر شہری کو اس کے مذہبی فرائض پر کاربند ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں دوبارہ جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، متعلقہ حقوق کی نقل اسے پیش کر کے اپیل کی اور اس نے مجھے ڈیوٹی کے دوران براؤن رنگ کا اسکارف لینے کی اجازت دے دی۔ اس نے کہا: ’’ان قوانین کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اب ’’نہیں‘‘ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہا۔‘‘ اور اس طرح خدا کے فضل سے میں سرکاری فرائض کے دوران بھی اسکارف پہننے لگی۔ لیکن مسئلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ مجھے فوج میں اور امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے بار بار لوگوں کی سوالیہ نظروں اور مختلف باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک روز ایک صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا: ’’تم نے سر پر کیا چیتھڑا باندھ رکھا ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ’’یہ چیتھڑا نہیں ہے جناب! میں مسلمان ہوں اور میرے مذہبی فرائض کا ایک حصہ ہے۔ ایک مسلمان عورت سر کھلا نہیں رکھ سکتی۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment