وزیر خانم کے بڑے بہنوئی نامور خاندان سے تھے

وزیر خانم کے بڑے بہنوئی مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی اصلاً دلی والے نہ تھے۔ وہ قوم کے شیخ فاروقی اور مولد ابڑودہ گجرات کے تھے۔ ان کے والد شیخ دین محمد نے بڑودہ میں حضرت سید نورالدین سیف اللہ الرفاعی (وفات 1225 مطابق 1810) کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک مدت انہیں کے آستانے پر مراقب و معتکف رہے۔ رفاعی سلسلے کے بانی شیخ احمدالرفاعی (1106 تا 1182) عربی النسل تھے، لیکن انہوں نے عمر کا بہت بڑا حصہ جنوبی عراق کے دلدلی علاقے کی ایک چھوٹی سی بستی بطائح میں گزارا۔ وہ خود قادری سلسلے میں بیعت تھے، لیکن ان کے ماموں شیخ منصورالبطائحی نے انہیں سلسلۂ رفاعیہ یا بطائحیہ کا سجادہ اور شیخ مقرر کر دیا۔ بعد میں سلسلہ صرف الرفاعی کے نام سے چلا اور دور دور پھیل گیا۔ ابن خلدون نے حضرت شیخ احمد الرفاعی کا مفصل ذکر کیا ہے۔ رفاعی سلسلے کی مقبولیت مالدیپ اور سراندیپ ہوتی ہوئی ملک دکن و ہند اور جزائر لکھن دیپ تک چودہویں صدی میں پہنچی۔ ابن بطوطہ نے مالدیپ کی رفاعی خانقاہوں اور اس سلسلے کے فقرا کا ذکر کیا ہے۔ ملک ہندو دکن میں یہ سلسلہ بہت جلد دور دور تک قائم ہو گیا۔
گجرات میں رفاعی سلسلے کے بزرگوں کی آمد بظاہر سولہویں صدی میں شروع ہوئی اور چند ہی برسوں میں ان کی خانقاہیں بڑودہ، سورت، راندیر اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں قائم ہو گئیں۔ حضرت شیخ سید نورالدین سیف اللہ رفاعی اٹھارویں صدی کے گجرات میں مقبول و محترم خلائق رفاعی بزرگ تھے۔ شیخ نورالدین سیف اللہ الرفاعی پر دل و جان سے اعتقاد اور عقیدت کے باوجود شیخ دین محمد نے حضرت شیخ کے ان مریدوں کے حلقے سے کوئی تعلق نہ رکھا، جنہیں راتب رفاعی سے شغف تھا۔ راتب رفاعی کے شرکا طرح طرح کے کرتبوں میں مہارت رکھتے تھے۔ رقص و غنا کے دوران خود کو تلواروں سے زخمی کرنا، اپنے سر کو لوہے یا کانسے کے گرز سے چوٹ پہچانا ان کے
خاص مشاغل تھے۔ بعض بعض راتب دار تو اپنے بدن کے مختلف حصوں، مثلاً رخسار، ران، پیٹ، حتیٰ کہ زبان کو بھی تلوار، لوہے کی میخ یا قینچی سے اس طرح زخمی کرتے تھے کہ اوزار اس حصۂ جسم کے پار ہو جاتا جس پر وہ ضرب لگا رہے ہوتے۔ بعض لوگ اپنی سانس اندر روک کر پھر ناک، منہ، اور کان کو مکمل طور پر بند کر کے سانس کو اس زور سے باہر پھونکتے کہ ان کی آنکھ حدقۂ چشم سے باہر نکل کر ان کے رخسار پر لٹک آتی۔ ان اعمال کو ’’ضرب رفاعی‘‘ کہا جاتا تھا۔ عوام کی زبان میں اسے ’’کھیل‘‘ اور ’’کھیلنا‘‘ کہتے تھے۔
بعض پرانے راتب داران رفاعی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ زندہ سانپ نگل لینے اور دہکتے ہوئے انگاروں پر چلنے میں کمال رکھتے تھے۔ بڑودہ کے راتب داران عموماً نوجوان یا نوبالغ لڑکے تھے اور وہ اپنے جوش عقیدت اور اپنے مرشد کے روحانی تصرفات کا مظاہرہ عرس کے مجمعوں اور بھرے بازاروں میں کرتے تھے۔ کوئی راتب دار ’’کھیل‘‘ کے دوران کبھی زخمی نہ ہوتا تھا۔ زخمی ہونا تو بڑی بات تھی، زخموں سے چھدے ہوئے کسی بدن سے خون کی بوند بھی نہ ظاہر ہوتی تھی۔ ’’کھیل‘‘ شروع کرنے کے پہلے راتب دار لڑکے حضرت شیخ نورالدین سیف اللہ الرفاعی یا ان کے نامزد خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے دعا لیتے اور ان سے اپنے ہتھیار پر دعا دم کراتے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ چاقو یا قینچی یا موٹی سوئی کو زبان یا کسی اور عضو جسم کے آر پار لیے لیے راتب دار اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کے سامنے اس قاتل اوزار کو کھینچ کر الگ کر دیتا۔ خون کی چھینٹ بھی نہ گرتی، صرف ایک نشان سا نظر آتا اور مرشد اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیتے تو وہ نشان بھی غائب ہو جاتا۔
راتب داران رفاعی کی سنسنی خیز حرکات اور ان سے وابستہ خوارق کی بنا پر رفاعی سلسلے کے بزرگوں کو بڑودہ میں (بلکہ تمام ملک میں جہاں جہاں وہ تھے) بے حد مقبولیت
حاصل تھی۔ لیکن شیخ دین محمد کا خیال یہ تھا کہ شرع دین متین اور طریق بزرگان سلف کی پوری پابندی نہایت ضروری ہے اور ایسے کام جن میں جسم کو تکلیف پہنچانے، یا نام و نمود، یا کرتب بازی کا شائبہ بھی ہو، انہیں مناسک دین کا مرتبہ دینا یا انہیں طریقت یا شریعت کے لحاظ سے مناسب جاننا رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ شیخ دین محمد اپنی اس رائے کو اپنے شیخ سے محبت کا حصہ اور دلیل جانتے تھے اور حضرت شیخ نورالدین سیف اللہ الرفاعی بھی شیخ دین محمد سے کوئی تعرض نہ کرتے تھے۔ عرس کے زمانے میں مختلف رنگوں کی جھنڈیاں نکالی جاتیں۔ ہر رنگ ان سلاسل میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرتا تھا، جن میں شیخ نورالدین اپنے مریدوں کو بیعت کرتے تھے۔ جھنڈیوں پر حضرت شیخ یا ان کا نامزید خلیفہ دعا پڑھ کر دم کرتا۔ پھر چھریوں، قینچیوں، میخوں، نیزوں اور تلواروں وغیرہ پر بھی دعا دم کی جاتی اور راتب رفاعی کا جلوس نہایت شان اور جوش عقیدت کے ساتھ سارے شہر کا چکر لگاتا اور ’’کھیل‘‘ والے نوجوان اور لڑکے تماشائیوں کو اپنے خوارق سے متحیر کرتے۔ عقیدت مندوں کا ہجوم نعرے لگاتا ساتھ چلتا۔ لوگ بڑھ چڑھ کر پرچم ہائے سلاسل طریقت کو بوسہ دیتے اور راتب بجا لانے والوں کے ہاتھ اور دامن چومتے۔
اس تمام مدت میں شیخ دین محمد اپنے گھر بیٹھے رہتے اور حضرت شیخ بھی کبھی انہیں خانقاہ میں حاضری کا حکم نہ دیتے۔ کئی برس یونہی گزر گئے۔ لیکن ایک بار عرس کے کچھ دن پہلے حضرت شیخ نورالدین الرفاعی نے انہیں اپنے حجرۂ خاص میں طلب کیا اور یوں گویا ہوئے: ’’دین محمد، ہم دیکھتے ہیں کہ تم منازل سلوک کے طے کرنے میں ہمہ وقت ساعی رہتے ہو۔ تمہارے قول اور عمل میں مطلق تفاوت نہیں۔ یہ بڑا فضل تم پر اللہ رب العالمین و کریم کا اور بوجہ توجہ و برکات بزرگان دین و اولیائے عظام ہے‘‘۔
شیخ دین محمد نے سر جھکا کر ہاتھ باندھ لیے اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا: ’’یہ ناکارہ کچھ نہیں۔ سرکار کے آستانۂ عالی کی خورشید نما خاک کی ایک کرن ہے، جو اس ذرۂ بے قیمت کو روشن کر رہی ہے‘‘۔
شیخ نورالدین الرفاعی نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر فرمایا: ’’مگر میں ادھر ایک مدت سے مشاہدہ کرتا ہوں کہ تمہاری ترقی کچھ مسدود سی ہو گئی ہے‘‘۔
شیخ دین محمد کی آنکھیں بھر آئیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ مرشد برحق کا یہ ارشاد تہدیدی ہے یا ہمت افزائی کی کوئی راہ نکلنے کی تمہید ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’رہنما بھی آپ ہیں، منزل بھی آپ ہیں۔ میں آپ کے عتبۂ عالی سے اٹھ کر کہاں جائوں؟‘‘۔
’’بعض رسوم و طرق یہاں کے نظروں میں تمہاری ناپسندیدہ، بلکہ غیر شرعی ہیں۔ اور بات صحیح بھی ہے، اگر سخت متشرعانہ نگاہ سے دیکھا جائے‘‘۔
شیخ دین محمد کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کیا جواب دیں۔ کیا حضرت کے لیے ممکن تھا کہ وہ میری خاطر ان اعمال و مشاغل کو ترک کرا دیتے…؟ اور بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو میں حضرت شیخ اور ان کے مسترشدین کو بھلا منہ دکھانے کے لائق رہوں گا؟ اور میری مجال کیا ہے کہ میں شیخ کے کسی قول یا عمل کو ناقص اپنی عقل پر جانچوں اور تولوں؟ اگر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا تو میں ان کا دامن چھوڑ کر کسی دوسرے کامل کو ڈھونڈوں اور اس کے دربار سے طالب برکت ہوں۔
’’بالکل یہی بات ہے‘‘۔ شیخ نورالدین سیف اللہ الرفاعی نے فرمایا۔ گویا انہوں نے شیخ دین محمد کے دل کی بات سن لی ہو۔ ’’اولیا اور پیران پیر کا حکم یہی ہے کہ اگر ایک مرشد کے یہاں کلی دل کی نہ کھلے تو اسے کسی اور کے در پر دستک دینی چاہئے‘‘۔
’’تو کیا حضور مجھے راندۂ درگاہ فرما رہے ہیں؟‘‘۔ شیخ دین محمد نے تھرا کر کہا۔
’’نہیں۔ تم جہاں جائو گے ہم تمہارے ساتھ ہوں گے۔ جن باتوں پر طبیعت تمہاری ابا کرتی ہے وہ قدیم الاوقات سے ہمارے بزرگوں کی رائج کی ہوئی ہیں۔ میں، یا کوئی بھی، تارک سنت اسلاف کا نہیں ہو سکتا کہ نتیجہ اس کا انتشار فی الامت ہو سکتا ہے۔ اور تمہارا دل بسکہ یہاں نہیں ہے، فلہٰذا تمہاری ترقیات بھی رک گئی ہیں‘‘۔
شیخ دین محمد نے بے ساختہ ہمت کر کے شیخ کے قدم لیے اور رو کر بولے: ’’سرکار مجھے یونہی ظلوم و جہول مر جانے دیں، خود سے جدا نہ کریں‘‘۔
حضرت سید نورالدین سیف اللہ الرفاعی نے پتھر کو پانی کر دینے والی مسکراہٹ مسکرا کر فرمایا: ’’ہم اور تم جدا نہ ہوں گے انشاء اللہ۔ لیکن تمہاری شریعت پسند طبیعت کو طریقت کی وہ راہیں زیادہ راس آئیں گی جہاں شریعت اور طریقت کی سرحدیں ایک ہو جاتی ہیں۔ اب جائو۔ تمہیں اللہ کو سونپا‘‘۔
اس کے بعد شیخ نورالدین الرفاعی نے اپنے کرتے سے ایک دھجی پھاڑ کر شیخ دین محمد کے گلے میں سیلی کی طرح باندھی اور وہ دعا پڑھی جو شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے حضرت بابا نظام الدین اولیا سلطان جی صاحب کو آخری بار رخصت کرتے وقت پڑھی تھی: ’’اسعَدَکَ اللّٰہُ فِی الدارینِِ و رَزَقَکَ عِلماً نافِعاً و عَمَلاً مَقبولا‘‘۔ یہ واقعہ جمادی الاول 1204، مطابق جنوری 1790 کا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment