سائبیریا سے آنے والے پرندے شکاری مافیا کا نشانہ بننے لگے

اقبال اعوان
سائبیریا سے آنے والے مہمان پرندے شکاری مافیا کا نشانہ بننے لگے۔ واضح رہے کہ ہر سال کراچی سمیت سندھ کے 46 اضلاع میں لاکھوں سائبیرین پرندے آتے ہیں۔ کراچی، ٹھٹھہ، بدین اور سجاول کے ساحلی علاقوں میں محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے شکاریوں نے ڈیرے ڈال کر ان کا شکار شروع کر دیا ہے۔ ان پرندوں کو شکار کر کے گوشت اسٹور کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ سال بھر ان سے بنی ہوئی ڈشوں کی کراچی، ٹھٹھہ اور بدین کے مخصوص ہوٹلوں میں فروخت ہوتی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے افسران کا کہنا ہے کہ سیزن میں بہت کم فنڈز مختص کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان پرندوں کیلئے 11 اہم جھیلوں میں دانا ڈالنے سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سائبیرین پرندوں کی آمد کا سیزن ستمبر سے فروری تک ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سیزن آتے ہی روسی علاقے سائبیریا سمیت دیگر ٹھنڈے ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں آبی پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک طرف ضلع بدین کے زیرو پوائنٹ، نریڑی جھیل اور گھڑو جھیل سمیت دیگر جھیلوں پر پرندوں نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیئے ہیں تو دوسری جانب مقامی شکاریوں نے گزشتہ سال سے کہیں زیادہ تعداد میں شکار کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان پرندوں کو پکڑ کر علاقے میں مختلف قیمتوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ بدین میں ان سائبیرین پرندوں کو مقامی لوگوں سے خرید کر شکاری مافیا کے لوگ مختلف ٹھکانوں پر ڈمپ کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول بدین میں ڈگھوس پرندہ 350 روپے، چیخلہ 150 روپے، نیرگی 500 روپے، لاکھا جانی 600، کونج 650، اور پین برڈ 800 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ اسی طرح کراچی کے ساحلی علاقوں مبارک ولیج، ماڑی پور، ہاکس بے، ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ کے ساحل تک اور ڈینگی بھنڈار سمیت دیگر جزیروں پر شکاری سرگرم ہو چکے ہیں۔ جبکہ سجاول، ٹھٹھہ، بدین کے ساحلی علاقوں میں بھی شکار بڑھ چکا ہے۔ ماہی گیر بھی لانچوں میں شکار شدہ پرندے ساحلی علاقوں میں لارہے ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار علاقوں میں شکاریوں کو سیٹنگ کر کے اجازت دے رہے ہیں۔ سال بھر ان مہمان پرندوں اور بازوں کا غیر قانونی شکار وائلڈ لائف کے اہلکاروں کیلئے بھی کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے 46 اضلاع میں یہ پرندے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔ زیادہ تر پرندے 8 اضلاع کی 11 اہم جھیلوں میں آتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے ان پرندوں کی دیکھ بھال کیلئے فی پوائنٹ رقم مختص کی جاتی ہے کہ ان پرندوں کو بریڈنگ کا ماحول اور دانے سمیت دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دوسری جانب ہر سال فنڈز کی کمی کا رونا رونے والے محکمہ وائلڈ لائف کے افسران کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت بجٹ کے دوران انتہائی ناکافی رقم مختص کرتی ہے۔ وائلڈ لائف سندھ کے مطابق گزشتہ برسوں میں 220 اقسام کے 6 لاکھ سے زائد پرندے آتے تھے۔ تاہم اب یہ تعداد کم ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلی، کراچی سمیت سندھ بھر میں بارشوں کی کمی اور خشک سالی کے باعث یہ پرندے پہلے ہی کم آرہے تھے۔ اب یہ زیادہ تر دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے سینئر افسر عدنان کا کہنا تھا کہ اس سیزن کے حوالے سے تاحال کوئی فنڈز نہیں ملے ہیں۔ ابھی تو سیزن کا آغاز ہوا ہے۔ جبکہ ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو کا کہنا تھا کہ بدین، ٹھٹھہ اور سجاول میں ان پرندوں کا غیرقانونی شکار کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سیزن کے دوران یہ پرندے افغانستان کے راستے بلوچستان کے ساحل سے سندھ کے ساحلی علاقوں میں آتے ہیں اور سندھ بھر کے دریائوں، نہروں، جھیلوں اور ڈیموں کی جانب آتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب یہ پرندے عالمی گرین روٹ (انڈس فلائی زون) روٹ نمبر 4 سے بھی آتے ہیں اور سندھ کی آبی گزرگاہوں اور دیگر علاقوں میں قیام کرتے ہیں۔ ان پرندوں کے حوالے سے سندھ حکومت ہر سال عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف نومبر کے ماہ سے فروری تک لگ بھگ 22 سے 24 اضلاع کے اندر باقاعدہ شکار کا لائسنس جاری کرتا ہے۔ تاہم شکاری یہاں بھی من مانی کرتے ہیں اور ان مہمان پرندوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے پرندوں کی غیر قانونی پکڑ دھکڑ کے خلاف زیادہ سخت کارروائی نہیں کی جاتی ہے بلکہ چند سو یا چند ہزار روپے کا جرمانہ کر کے معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ ادھر ماہی گیر بھی شکاریوں کے ساتھ مل کر کراچی سے کھلے سمندر تک 200 جزیروں پر قیمتی آبی باز پیریگرین (PEREGIREN) کے شکار کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ کراچی میں یہ آبی باز سال بھر کلفٹن، ڈیفنس، گذری اور گڈاپ کے علاقوں میں فروخت ہوتا ہے۔ بعد ازاں ان کو دبئی، ابوظہبی اور جرمنی کی مارکیٹوں میں فروخت کیلئے بھیجا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment