بٹوہ چور افسر کے خلاف تاحال مقدمہ درج نہ ہوسکا

محمد زبیر خان
اعلیٰ سطح کے کویتی وفد کے سربراہ کا بٹوہ چوری کرنے والے 20 گریڈ کے افسر کیخلاف تاحال مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ اسلام آباد پولیس اور ایف آئی اے کو حکومت، وزارت کی جانب سے کوئی درخواست نہیں بھیجی گئی۔ جبکہ وزارت کی جانب سے بھی کوئی محکمانہ کارروائی نہیں ہوئی۔ پولیس اور ایف آئی اے حکام کے مطابق چوری کے مذکورہ کیس میں زیادہ تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری مانیٹر کیمرے ایک ٹھوس ثبوت ہیں، جس کی بنیاد پر عدالت سے سزا ہوسکتی ہے۔ 20 گریڈ کا افسر ضرار حیدر خان ملازمت سے برطرف ہوسکتا ہے۔ سفارتی سطح پر ملک کی بدنامی پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید غم وغصہ کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کی رات سے یہ اطلاعات تھیں کہ وزارت سرمایہ کاری اور سہولت کاری کے گریڈ 20 کے افسر اور جوائنٹ سیکریٹری، کویت سے آئے ہوئے وفد کے سربراہ کے پرس کی چوری میں ملوث ہیں۔ جبکہ اب اس کی ویڈیو بھی وائرل ہوچکی ہے۔ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب کویت کے وفد نے پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور اس موقع پر مستقبل میں مختلف معاہدوں کے حوالے سے کچھ چیزوں پر بات چیت کی گئی۔ میٹنگ میں موجود ’’امت‘‘ کے ایک ذریعے نے بتایا کہ جب میٹنگ ختم ہوئی اور کویت کا وفد تمام دستاویزات وغیرہ سمیت کرجانے کے لئے تیار تھا تو اس وقت کویتی وفد کے سربراہ نے اعلان کیا ’’میں انتہائی مایوسی اور افسوس کے عالم میں بتا رہا ہوں کہ میرا پرس چوری ہوگیا ہے‘‘۔ پرس اور بریف کیس ساتھ رکھے تھے اور یہ اس وقت ہوا ہے جب درمیان میں ایک وقفہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر پاکستانی وفد پر سکتہ طاری ہوگیا اور وفد نے کویتی وفد سے معذرت کرتے ہوئے فی الفور کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر پاکستانی وفد نے فی الفور سیکورٹی اور کیمرہ مانیٹرنگ کو سی سی ٹی وی کیمرے چیک کرنے کا کہا اور سیکورٹی سے متعلق ٹیم نے چند ہی لمحوں میں پرس اٹھانے کی فوٹیج وزارت کے اعلی احکام کو دے دی، جس میں واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ گریڈ بیس کے افسر ضرار حیدر خان چوری کرنے کے ارادہ سے پرس اٹھا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جب فوٹیج اعلیٰ احکام کو پیش کی گئی تو ضرار حیدر خان موقع سے غائب ہوچکے تھے اور ان کا موبائل نمبر بھی بند تھا۔ تاہم اعلیٰ حکام نے اپنے ذرائع سے ان سے رابطہ قائم کرکے پرس کویتی وفد کو واپس پہنچایا اور اس موقع پر معذرت بھی کی گئی، جس کو کویتی وفد نے رسماً تو قبول کیا مگر ذرائع کے مطابق ان کی باڈی لینگویج سے مسروقہ سامان واپس کرنے والوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور مہمانوں نے پاکستانی افسران کی پوری بات سننا تک بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔
خیال رہے کہ واقعہ کے بعد سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ معاملے کی ضروری کاروائی کی جائے گی۔ مگر جب ’’امت‘‘ نے اسلام آباد پولیس سے رابطہ قائم کیا تو بتایا گیا کہ ان کو حکومت، وزارت کی جانب سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ان کو کسی نے کارروائی کرنے کا کہنا ہے۔
اسی طرح ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملے میں حکومت، وزارت یا متعلقہ شعبے میں سے کسی نے ان کو کارروائی کا نہیں کہا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی درخواست موصول ہوئی ہے۔ دونوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے باضابطہ طور پر کسی قسم کی کاروائی کرنے کا نہیں کہا گیا۔ تاہم دونوں اداروں کے تفتیشی افسران نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیدھا سادا کیس ہے کیونکہ س سی ٹی وی کیمرے سرکاری ہیں اور یہ ایک ٹھوس ثبوت ہیں جن کو عدالت بھی نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ تفتیشی افسران کے مطابق حکومت اور متعلقہ وزارت نے ضرار حیدر پر فوجداری کارروائی کی تو اس کیس میں زیادہ تفتیش وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑی گی۔ سرکاری ملازمین کے امور اور قوانین سے مکمل واقفیت رکھنے والے ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پہلے مذکورہ افسر کی معطلی اور بعد ازاں اگر عدالت سے چوری ثابت ہوجاتی ہے توقید کی سزا کے ساتھ ملازمت سے برطرفی ہوجائے گی۔
واقعہ پر عوام نے سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ افسیر کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ واضح رہے کہ ضرار حیدر خان کا تعلق 13ویں ڈسڑکٹ مینجمنٹ سروس سے ہے۔ انہوں نے مختلف اضلاع اور چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھی اہم عہدوں پر فرائض انجام دیئے تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment