عظمت علی رحمانی
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے قتل کی پلاننگ دبئی میں تیار کی تھی۔ ایجنٹوں کو ٹریننگ افغانستان میں دلائی گئی۔ پہلے مرحلے میں واپڈ کے ملازم کو بھاری معاوضہ دیکر جماعت الدعوۃ کے تعلقات عامہ کے رہنما خالد بشیر کو ٹارگٹ کیا گیا۔ مقتول خالد بشیر کے ایک تعلق دار حبیب الرحمان نے گھر سے بلا کر تشدد کے بعد انہیں قتل کیا اور لاش کو گجرانوالہ نندی پور نہر میں پھینک دیا تھا۔ ملزمان تک پہنچنے کیلئے موبائل فون ڈیٹا کی مدد لی گئی۔ دو ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی ہے، جبکہ تیسرا تاحال فرار ہے۔
خالد بشیر جماعت الدعوۃ کے اولین کارکنان میں سے تھے جو کم وقت میں کارکردگی کی بنیاد پر جماعت کے رہنماؤں میں شامل ہو گئے تھے۔ بہترین صلاحیتوں کی وجہ سے جماعت میں انہیں شعبہ تعلقات عامہ میں شامل کیا گیا تھا۔ متحرک اور بنیادی کارکن ہونے کی وجہ سے خالد بشیر کو جماعت میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ خالد بشیر کی رہائش ہجویری ٹاؤن لاہور میں تھی۔ گرفتار ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ خالد بشیر اور حبیب الرحمان کی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی تھی، جہاں سے مزید تعلق آگے بڑھتا رہا۔ وقوعے کے روز خالد بشیر کو حبیب الرحمان کی کال آئی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ شام کو دوبارہ حبیب الرحمان نامی شخص کی کال آئی کہ میں آرہا ہوں، آپ سے ملنا ہے۔ اس کے بعد حبیب الرحمان ان کے گھر آیا اور ان کو ساتھ لے گیا۔ ہجویری ٹاؤن سے کافی آگے نکل جانے کے بعد حبیب الرحمان نے گاڑی میں مزید دو افراد کو بٹھایا جن کا تعارف خالد بشیر سے کراتے ہوئے بتایا گیا کہ خواجہ ظفر قیوم اور بلال میرے دوست ہیں۔ مقتول خالد بشیر کے بارے میں حبیب الرحمان کو معلوم تھا کہ انہیں پلپی جوس بہت پسند ہے۔ لہٰذا اس نے اپنے ان دوستوں کو کہا تھا جو پلپی جوس کی 4 بوتلیں لے کر آئے۔ خالد بشیر سے پہلے انہوں نے جوس پیا تاکہ ان کو شک نہ ہو کہ ان کی بوتل میں کوئی چیز ملائی گئی ہے۔ تاہم خالد بشیر نے جوس پیا تو ان کو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی شے ملی ہوئی ہے۔ لہٰذا انہوں نے کہا کہ اس جوس کا ذائقہ قدرے مختلف ہے۔ ملزمان کے مطابق پلپی جوس میں نیند کی گولیاں ملائی گئی تھیں، جس کو پینے کے بعد خالد بشیر کو لاہور کے ہی احاطہ ٹھوکر نیاز بیگ پر ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ جس پر ملزمان نے کہا کچھ نہیں ہوا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ حبیب الرحمان کے دونوں ساتھیوں میں ایک گجرانوالہ کے علاقہ رانوالی کے گاؤں بینکے چیمہ کا رہائشی خواجہ ظفر قیوم تھا جبکہ دوسرا واپڈا کا ملازم بلال نامی شخص، رانوالی کینٹ میں رہائش پذیر تھا۔
حبیب الرحمان اپنے دوستوں خواجہ ظفر قیوم اور بلال کے ساتھ مل کر خالد بشیر کو بے ہوشی کی حالت میں لاہور سے لے کرشیخو پورہ اور وہاں سے گجرانوالہ نندی پور کی نہر تک لے گیا۔ یہاں رات ایک سے 2 بجے کا وقت تھا۔ مذکورہ نہر کے قریب رات کے اس پہر کسی بھی شخص کی آمد و رفت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے تینوں ملزمان نے خالد بشیر کے ہوش آنے کے بعد ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی بات نہ نکلنے کی صورت میں خالد بشیر پر تشدد کرنے کے بعد سر میں گولی مار کر قتل کردیا گیا اور لاش کو نہر میں پھینک دیا گیا تھا۔
خالد بشیر کے لواحقین میں ایک بیوہ، 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ان کے اچانک موبائل نمبر بند ہونے کی وجہ سے بھائی اور جماعت کے دیگر ساتھیوں نے انہیں ڈھونڈنا شروع کیا۔ تاہم کوئی سراغ نہیں ملا، جس کے بعد ہربنس تھانہ میں گمشدگی کی درخواست دی گئی۔ خالد بشیر کے قریبی ساتھی اور جماعت الدعوۃ کے ذمہ دار خالد ولید کا کہنا تھا کہ خالد بشیر اور میں ایک روز قبل تک ساتھ ساتھ رہے اور وہ رات 9 بجے ہم سے جدا ہو ئے جس کے بعد گھر چلے گئے تھے۔ اگلی صبح ہم نے 2013ء میں پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مقرر ہونے والے محمود الرشید کے ہاں ناشتہ کی دعوت پر جانا تھا۔ ہم صبح طے شدہ وقت پر پہنچے تو خالد بشیر کا نمبر بند تھا۔ ڈرائیور اور گن مین سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ رات کو وہ ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اس کے بعد ہمیں ان کی کوئی کال نہیں آئی۔ گھر والوں نے بتایا کہ ان کو کال آئی تھی، جس کے بعد وہ گھر سے نکل گئے تھے۔ اس کے بعد ہماری ٹینشن بڑھ گئی اور ہم نے موبائل کی لوکیشن لی تو گجرانوالہ کے علاقے پتلے والہ کی لوکیشن آئی۔ ہم نے انتظامیہ سے رابطہ کیا اور انہوں نے بھی چھان پھٹک شروع کردی۔ تیسرے روز ہمیں ڈی پی او کی کال آئی کہ بجلی گھر کے پاس سے ایک لاش ملی ہے، جو مرید کے اسپتال میں ہے اس کو شناخت کریں۔ لاش کی جیب سے ایک کارڈ اور اس کا نمبر لکھا ہوا ملا ہے۔ جب میں اور حافظ عبدالروف مرید کے، گئے تو شناخت کرلیا اور میت لے کر آگئے جس کے بعد خالد بشیر کے بھائی کی مدعیت میں ہربنس پورہ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔
معلوم رہے کہ قاتل خواجہ ظفر قیوم پراپرٹی کا کام کرتا تھا اور بلال واپڈ میں لائن مین کے طور پر ملازم تھا۔ جبکہ حبیب الرحمان نے ان دونوں کو اپنے گینگ میں شامل کیا۔ حبیب الرحمان ایک طرف خالد بشیر سے قریب لگا رہا اور دوسری طرف ان دونوں ساتھیوں کو اعتماد دلا کر انہیں دبئی لے کر گیا وہاں ان کی ڈیل ’’را‘‘ کے ایجنٹوں سے کرائی گئی جن کو ٹاسک دیا گیا کہ انہوں نے جماعت الدعوۃ کی قیادت کو ٹھکانے لگانا ہے۔ پہلے مرحلے میں انہیں کروڑوں روپے دیئے گئے اور ان کی ٹریننگ افغانستان میں کرائی گئی۔ انہیں مزید رقم دینے سے قبل کہا گیا تھا کہ فی الحال کسی ایک کو ٹھکانے لگاؤ تاکہ مزید رقم دی جائے جس کے بعد انہوں نے پلان کے مطابق خالد بشیر کو قتل کیا۔ کیس کی تفتیش میں پولیس کی جانب سے انہیں گرفتار کیا گیا لیکن حبیب الرحمان اس دوران گھر والوں کو بتائے بغیر بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
٭٭٭٭٭