امت رپورٹ
حکومت پاکستان نے اسلام آباد آئے ہوئے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کو سی پیک منصوبوں کی تفصیلات دینے سے انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق قرضوں کی ادائیگی کا شیڈول طے کرنے کیلئے آئے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے کے وفد نے پاکستانی حکام سے بات چیت کے دوران سی پیک منصوبوں کی تفصیلات مانگی تھیں۔ ذرائع کے بقول عالمی مالیاتی ادارہ ان منصوبوں کی تفصیلات پوچھنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کا دائرہ اختیار صرف اپنے دیئے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے طریقہ کار تک محدود ہے۔ جبکہ امریکہ اور آئی ایم ایف سی پیک منصوبوں کے معاہدوں کی نقول حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ یہ اقتصادی راہداری جو دنیا کے دشوار گزار ترین راستوں سے گزرے گی، کس طرح چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سی پیک پروجیکٹ کے باوجود مستقبل میں پاکستان کا آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں پر کس حد تک انحصار ہوگا۔ ذرائع کے بقول امریکہ خصوصاً سی پیک کے توانائی منصوبوںکے اسٹرٹیجک پہلوئوں سے پریشان ہے اور پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے مشن چیف ہیرالڈ فنگر نے ان منصوبوں کے بارے میں استفسار کیا۔ وہ ان منصوبوں کی شفافیت کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنا رہے ہیں۔ لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں اس بارے میں کوئی معلومات دینے سے صاف انکار کردیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن 4 اکتوبر تک پاکستان میں رہے گا۔ ذرائع کے مطابق اس دوران اس کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خوفزدہ کرکے نئی شرائط کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج لینے کیلئے رضامند کرے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاملے پر کوئی وعدہ نہیں ہوا ہے، اس لیے وہ آئی ایم ایف کو کچھ بھی بتانے کا پابند نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کو یہ تشویش ہے کہ پاکستان نیا بیل آئوٹ پیکج نہیں لے رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو ایک حد سے زیادہ ترقی نہیں کرنے دیا جاتا اور معیشت کو اس مقام پر نہیں پہنچنے دیا جاتا کہ پاکستان اپنی پیداواری صلاحیت بڑھائے اور دنیا میں اس کی کرنسی مستحکم ہو۔ جبکہ معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں توانائی کے سستے ذرائع میسر ہوں۔ لیکن آئی ایم ایف عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا ہے کہ پاکستان تیل کی قیمتوں میں اتنی کمی نہ کرے کہ اس کی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں عالمی منڈی کے مقابلے میں کمی آئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانی سے بجلی بنانے کے تمام منصوبوں کو امریکی اور بھارتی ایجنٹوں نے متنازعہ بنا دیا ہے۔ اگر بجلی سستی ہوگئی تو پاکستانی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور وہ عالمی منڈیوں میں جگہ بنائیں گی۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت بڑھے گی اور قرضوں کا بوجھ کم ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان کا آئی ایم ایف پر سے انحصار ختم ہو جائے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف کو یہ تشویش ہے کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری کا مجموعی حجم 60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ادائیگیوں اور منصوبوں کا منافع چین جانے سے پیدا ہونے والے مسائل سے پیشگی متنبہ کردیا ہے۔ گویا یہ ایک طرح کی دھمکی ہے کہ قرضوں کا جو منافع پہلے امریکہ جاتا تھا اب وہ چین جائے گا تو امریکہ کی اقتصادی حالت مزید دگر گوں ہوجائیگی اور پاکستانی معیشت میں آئی ایم ایف یا امریکی کردار صفر ہو کر رہ جائے گا۔ جمعہ کو امریکی سفارت خانے کے افسران نے بھی وزارت خزانہ سے اپنی اس ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا کہ سی پیک معاہدوں میں انہیں شفافیت نظر نہیں آتی اور اب آئی ایم ایف سی پیک کے توانائی منصوبوں کی تفصیلات طلب کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سی پیک کے منصوبوں سے حاصل ہونے والے منافع سے چینی قرضوں کی ادائیگی کرے گا، آئی ایم ایف کے قرضوں کی اس منصوبے سے ادائیگیاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان سی پیک کے قرضے ڈیڑھ سال میں واپس کرنا شروع کرے گا۔ پاکستانی حکام کے مطابق2020ء کے بعد قرضوںکی واپسی بہت بڑھ جائے گی اور اس مد میں جی ڈی پی کا 0.4 فیصد خرچ ہوگا۔ پاکستانی حکام کے تخمینوں کے مطابق ابتدائی سال میں سی پیک سے متعلق رقوم کی واپسی جی ڈی پی کا0.1 فیصدہوگی تاہم آئی ایم ایف کے مطابق سات سال بعد یہ ادائیگیاں بلند سطح پر پہنچ جائیںگی اور ساڑھے تین سے ساڑھے چار ارب ڈالر سالانہ واپس کرنا پڑیں گے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ2024 ء تک سی پیک سے متعلق رقوم کا پاکستان سے انخلا جی ڈی پی کا 1.6 فیصد تک ہوجائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد نے سی پیک پروجیکٹ 60 ارب ڈالر تک پہنچنے پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ دراصل یہ آئی ایم کا خوف ہے کہ پاکستان اس کے چنگل سے مکمل طور پر نکل نہ جائے۔ آئی ایم ایف کے خیال میں پاکستان کی ادائیگی کی صلاحیت کمزور رہے گی کیونکہ قرضہ دینے والے عالمی اداروں کے مطابق ڈالرکے مقابلے میں روپیہ مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں پاکستان کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافے کا امکان نہیں ہے۔ ابتدائی طور پرسی پیک کاحجم 46 ارب ڈالر تھا، تاہم بعد میں نئے منصوبے شامل کرکے اسے 60 ارب ڈالر تک پہنچا دیا گیا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے8.2 ارب ڈالرکے مین لائن منصوبے کو پورا ہونے میں ابھی وقت لگے گا اور اس کی رقوم واپسی کو سی پیک سے منسلک ذمہ داریوں میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ 2020 ء سے سی پیک کی رقوم واپسی دو ارب ڈالر سالانہ ہوگی جو پاکستان اپنی برآمدات بڑھا کرآسانی سے ادا کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭