زرداری-نواز کی تعزیتی ملاقات کےبعد برف نہیں پگھل سکی

بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر تعزیت کے حوالے سے آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے باوجود برف پگھل نہیں سکی ہے۔ مرحومہ کی رسم قل والے روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف زرداری جاتی امراء پہنچے تھے۔ پیپلز پارٹی کے وفد کو عقبی دروازے سے اندر بلایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے اپنی اپنی قید کے حوالے سے یادیں شیئر کی تھیں۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے وفد کی آمد کا شکریہ ادا کیا تو آصف زرداری نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ’’صبر کریں جلد سب اچھا ہو جائے گا‘‘۔ موقع پر موجود ایک لیگی عہدیدار کے مطابق اس ملاقات میں ایک دوسرے
سے اپنی قید کے دنوں کی یادیں اور دکھ شیئر کرنے پر دونوں رہنمائوں کے درمیان جو تلخی تھی، وہ پس پشت چلی گئی تھی۔ اور لیگی قیادت کا خیال تھا کہ دونوں رہنمائوں میں ایک دوسرے کے لئے پیدا ہونے والا ہمدردی کا جذبہ سیاسی فاصلے بھی بتدریج کم کر دے گا۔ بالخصوص اس ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال فی الحال ترک کیا ہوا ہے۔ تاہم لیگی عہدیدار کے بقول اس کے باوجود سیاسی معاملات پر دونوں پارٹیوں میں برف نہیں پگھل سکی ہے۔ نواز شریف پیپلز پارٹی سے دوبارہ خوشگوار سیاسی تعلقات بحال کرنے کے شدید متمنی ہیں، لیکن آصف زرداری تاحال گریزاں ہیں۔ عہدیدار نے بتایا کہ تعزیتی ملاقات کے بعد ضمنی انتخابات، دونوں پارٹیوں کے درمیان خوشگوار سیاسی تعلقات کی بحالی سے ماپنے سے متعلق پہلا ٹیسٹ کیس ہیں۔ لیکن اب تک اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے مشترکہ امیدوار لانے کیلئے دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے، لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے اب تک کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا ہے۔ لیگی عہدیدار کے بقول نواز شریف نے تو آصف زرداری کی طرف زیتون کی شاخ بڑھا دی ہے۔ اب یہ پیپلز پارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ امن و محبت کے اس پیغام کا کتنا مثبت جواب دیتی ہے۔ فی الحال اس کے امکانات ظاہر ہونا شروع نہیں ہوئے ہیں۔ لیگی عہدیدار کے مطابق نواز شریف سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی گریز کی پالیسی کے پیچھے وہ دبائو کار فرما ہے، جو مختلف کیسز کی تحقیقات کے حوالے سے آصف زرداری اور ان کے دیگر ساتھیوں پر بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم سابق وزیراعظم نے ابھی امید کا دامن چھوڑا نہیں ہے اور ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں جو سنیاریو متوقع ہے، وہ بالآخر دونوں پارٹیوں کو نزدیک کر دے گا۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندرونی ذرائع کے مطابق نواز شریف نے پارٹی کے پنجاب چیپٹر کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ ضمنی الیکشن میں کم از کم لاہور سے قومی اسمبلی کی دو سیٹیں کسی طور پر ہاتھ سے نہیں نکلنی چاہیں۔ واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو شیڈول ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلی کے 19 حلقوں میں سیاسی دنگل ہونے جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی ان گیارہ سیٹوں میں سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی طرف سے خالی کی جانے والی واحد سیٹ این اے 124 ہے، جہاں سے حمزہ شہباز جیتے تھے۔ جبکہ دیگر 10 سیٹوں میں بیشتر تحریک انصاف کے کامیاب امیدواروں نے خالی کی ہیں جن میں عمران خان کی چار نشستیں بھی شامل ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کو ادراک ہے کہ قومی اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے اس کے ہاتھ چند سیٹیں آ سکتی ہیں، جن میں لاہور کی دو نشستیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا زیادہ محنت ان ہی سیٹوں پر کی جا رہی ہے۔ تاہم نون لیگ کی خواہش ہے کہ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 53 اور این اے 60 راولپنڈی کی نشست بھی ہاتھ لگ جائے۔ بالخصوص ان دو سیٹوں پر کامیابی کے لئے ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مشترکہ امیدوار لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق این اے 53 پر اگرچہ شاہد خاقان عباسی کو عمران خان کے ہاتھوں بھاری مارجن سے شکست ہوئی تھی، تاہم اب چونکہ عمران خان خود اس حلقے سے میدان میں نہیں اتریں گے اور پھر یہ کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار نے بھی اس حلقے سے 10 ہزار کے قریب ووٹ لئے تھے، لہٰذا اگر دونوں پارٹیاں مل جاتی ہیں تو ضمنی الیکشن میں یہ سیٹ نکالی جا سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں نون لیگ، ایم ایم اے کی قیادت سے بھی بات کر رہی ہے۔ جس کے امیدوار نے 25 جولائی کے الیکشن میں یہاں سے پونے سات ہزار کے قریب ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس طرح این اے 60 کے حلقے میں بھی پیپلز پارٹی قابل ذکر ووٹ بینک رکھتی ہے، جو دونوں پارٹیوں کے مشترکہ امیدوار کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ حنیف عباسی کی گرفتاری کے باعث اس حلقے میں الیکشن ملتوی ہوئے تھے۔ یہ حلقہ نون لیگ کا مضبوط سیاسی گڑھ بھی کہلاتا ہے۔ پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن میں یہاں سے شیخ رشید کے بھتیجے کو ٹکٹ دیا ہے۔ جس پر پی ٹی آئی کی مقامی قیادت سخت برہم ہے۔ نون لیگ اس صورت حال کا فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ اس کے خیال میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا مشترکہ امیدوار شیخ رشیید کے بھتیجے کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تاہم پیپلز پارٹی کی تاحال خاموشی نے لیگی قیادت کو مایوس کر دیا ہے۔ لہٰذا ساری توجہ لاہور میں قومی اسمبلی کی دو سیٹوں پر مرکوز کر دی گئی ہے۔
لاہور میں موجود لیگی ذرائع سے حاصل کردہ تازہ معلومات کے مطابق این اے 124 اور این اے 131 پر ضمنی الیکشن لڑنے کے لئے نون لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابی مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ این اے 124 سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدوار شاہد خاقان عباسی کی الیکشن کمپیئن حمزہ شہباز چلا رہے ہیں۔ ان کی یہ ڈیوٹی پارٹی صدر شہباز شریف نے لگائی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ این اے 124 میں صوبائی کے دو حلقے مکمل طور پر اور دیگر دو حلقوں کا بڑا حصہ بھی آتا ہے۔ ان چاروں صوبائی نشستوں پر کامیاب ہونے والے لیگی ایم پی پیز سے تین صوبائی اسمبلی کے اراکین میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن، خواجہ نذیر اور چوہدری شہباز کو بھی شاہد خاقان عباسی کی الیکشن کمپیئن پر لگا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب این اے 124 میں ٹوٹل 36 یو سیز آتی ہیں۔ ان یو سیز کے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کا تعلق مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ چند روز پہلے حمزہ شہباز نے ان لیگی یو سی چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کی بھی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ جس میں 34 چیئرمینوں اور 30 کے قریب وائس چیئرمینوں نے شرکت کی۔ باقی کچھ بیماری اور شہر میں نہ ہونے کے سبب شریک نہ ہو سکے۔ میٹنگ میں حمزہ شہباز نے یو سی چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو اپنی متعلقہ یو سیز میں روزانہ کارنر میٹنگز کرنے کا ٹاسک دیا، جس پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ جبکہ 6 اکتوبر سے این اے 124 کے مختلف علاقوں میں چھوٹے جلسوں کا پلان بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دوسری طرف شاہد خاقان عباسی کے مقابلے پر میدان اتارے جانے والے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ غلام محی الدین دیوان آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ تحریک انصاف نے انہیں این اے 124 سے اس لئے بھی میدان میں اتارا ہے کہ اس حلقے میں کشمیریوں کی قابل ذکر تعداد بھی آباد ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق جس طرح ساری مسلم لیگ ’’ن‘‘ شاہد خاقان عباسی کی الیکشن کمپیئن میں انوالو ہے۔ غلام محی الدین اس ایڈوانٹیج سے محروم ہیں۔ اور زیادہ تر اپنے بل بوتے پر الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول انہوں نے اس سلسلے میں علیم ڈار اور جہانگیر ترین سے مدد مانگی تھی، لیکن تاحال انہیں حوصلہ افزا جواب نہیں مل سکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال میں این اے 124 سے شاہد خاقان عباسی کی فتح کے امکانات خاصے روشن ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ لاہور میں قومی اسمبلی کی ایک اور نشست این اے 131 پر ضمنی الیکشن کے سلسلے میں بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور تحریک انصاف کے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ نشست عمران خان نے خالی کی تھی اور اب یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہمایوں اختر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تاہم انہیں بھی کم و بیش غلام محی الدین والی صورت حال کا سامنا ہے۔ جنرل (ر) اختر عبدالرحمان کے صاحبزادے ہمایوں اختر نے 25 جولائی کے الیکشن میں اس حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد عمران خان کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ تاہم جس زور و شور سے انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کی انتخابی مہم میں حصہ لیا، ان کی انتخابی مہم میں پی ٹی آئی فی الحال وہ گرم جوشی نہیں دکھا رہی۔ ذرائع نے بتایا کہ کنٹونمنٹ کے علاقے میں آنے والے این اے 131 میں ہمایوں اختر نے ابھی اپنی توجہ برج کالونی اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں پر رکھی ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں انہوں نے چند انتخابی میٹنگز کی ہیں، تاہم ان سطور کے لکھے جانے تک حلقے کے لوئر مڈل علاقوں میں قدم نہیں رکھا تھا۔ جبکہ اس سلسلے میں ان کی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی دو تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ اس کے برعکس ان کے مخالف نون لیگی امیدوار خواجہ سعد رفیق نے حلقے میں ڈور ٹو ڈور کمپیئن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ خواجہ سعد رفیق کو حلقے کے ووٹروں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ایسے ہی موقع کی روداد بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد نے چند روز پہلے ڈیفنس میں ایک میٹنگ کی تھی۔ ایک بنگلے میں ہونے والے اس اجلاس میں لوگوں کو شناختی کارڈ دکھا کر اندر جانے کی اجازت تھی۔ میٹنگ کا مقصد 25 جولائی کے الیکشن میں اس حلقے سے نون لیگ کی شکست کے اسباب جاننا تھا۔ لہٰذا بیشتر کالونیوں کی محلے کی سطح کے وفود کو مدعو کیا گیا تھا۔ اجلاس میں شریک ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پر خواجہ سعد نے شرکاء سے کہا کہ وہ بغیر کسی مروت کے این اے 131 سے لیگی شکست کی وجوہات بیان کریں۔ جس پر شرکاء نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ اور خواجہ سعد کو مخاطب کر کے کہا کہ 2013ء کے الیکشن میں اس حلقے سے جیت کر آپ وزیر ریلوے بن گئے۔ تاہم پانچ برسوں کے دوران حلقے کا صرف دو بار دورہ کیا۔ جس طرح بطور لیگی ایم این اے آپ نے حلقے کے لوگوں کو لاوارث چھوڑا، یہی چیز پارٹی کی شکست کا سبب بنی۔ حتیٰ کہ آپ کو ووٹ دینے والے لوگوں کے سیوریج جیسے چھوٹے مسائل بھی حل کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق اس پر خواجہ سعد نے باقاعدہ ہاتھ باندھ کر معذرت کی اور یقین دہانی کرائی کہ وہ دوبارہ اس حلقے سے منتخب ہونے کے بعد ماضی جیسا رویہ نہیں اپنائیں گے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اجلاس میں موجود اس حلقے کے بلدیاتی لیگی ذمہ دار چوہدری اکرم سوہل کی سخت سرزنش بھی کی۔ جس کی ڈیوٹی بقول ان کے علاقے کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کے لئے انہوں نے لگائی تھی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment