حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

قسط نمبر17
سید ارتضی علی کرمانی
برطانوی جارج پنجم کیلئے دربار کے انعقاد کے کوئی ایک برس بعد حضرت صاحبؒ جب عرس پر شرکت کرنے کے لیے پاک پتن تشریف لے گئے تو ایک روز دوران مجلس دیوان سید سجادہ نشین صاحب سے فرمایا کہ آپ کا دہلی دربار میں شامل ہونا اس وجہ سے درست تھا کہ آپ کی حیثیت ایک جاگیردار ہونے کی بھی تھی، جو اسلامی حکومتوں کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ دہلی اور علی گڑھ کے بعض دوستوں نے مجھے لکھا تھا کہ آپ ضرور شرکت فرمائیں، کیوں کہ اس میں اسلام کی عزت ہے، میں نے جواب دیا کہ میرے نزدیک ذلت ہے۔
اس پر جناب دیوان صاحب سید محمد نے اس کی تصدیق کی کہ واقعی آپ کا ارشاد بالکل درست ہے، کیوں کہ بڑے ادب سے جھک کر بادشاہ کو نذرانہ پیش کرنے کا منظر ایک باعزت مسلمان کے لیے واقعی بڑا مشکل اور ناقابل برداشت تھا۔
حضرت صاحبؒ کا واقعہ انگریزوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہورہا تھا۔ اس واقعہ کو ٹائمز آف لندن نے بھی شائع کیا کہ یہ ایک طرح سے سرکشی ہے، اب بھلا انگریزوں کو اولیاء کے مراتب اور مزاجوں سے کس طرح آشنائی ہوسکتی تھی۔ ان کی نظر میں تو سارے داڑھیوں والے ایک جیسے ہی تھے، مگر ان کو پیران عظام کے رتبوں کا علم نہ تھا۔ چونکہ لندن میں بھی اس واقعہ کا خاص طور پر نوٹس لیا گیا۔ چنانچہ پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر لوئی ڈین نے شملہ میں اپنی کونسل اجلاس میں کہا کہ میں پیر آف گولڑہ کے اس انکار کی اصلی وجہ معلوم کروں گا اور میری حکومت تحقیقات کے بعد مناسب خیال کرے گی۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا اس اعلان کی خبر آپ تک نہیں پہنچی ہوگی۔ نا صرف پہنچی ہوگی بلکہ ہنگامی طور پر پہنچائی بھی گئی ہوگی۔ اس سلسلے میں راولپنڈی کے کمشنر نے ڈپٹی مظفر خان جو کہ مجسٹریٹ تھے کے ذریعہ بلوایا۔ مظفر خان نے حضرت صاحبؒ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ آپ کی ملاقات سے یہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا اور بذریعہ ریل گاڑی آمدورفت پر صرف تین گھنٹے لگیں گے، اگر عصر کے بعد حسب معمول سواری کے دوران ٹوپی رکھ جاتے ہوئے کمشنر صاحب سے بھی ملیں تو بھی کم وقت لگے گا۔ حضرت صاحبؒ ایک صاحب بصیرت ولی کامل تھے، آپؒ نے فرمایا کہ میں تین منٹ کے لیے بھی اس مسجد کو چھوڑ کر جانے کیلئے تیار نہیں۔ کمشنر صاحب سے کہہ دیجئے کہ وہ یہاں آ جائیں۔
حضرت پیر صاحبؒ کی جانب سے یہ انکار انگریز سرکار کیلئے کوئی اطمینان بخش امر نہ تھا۔ آپؒ کے اس انکار نے انگریز حکومت میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا کر دی۔ بعض حاص قسم کے لوگوں نے گورنر سے بھی ملاقات کی اور طرح طرح کی خبریں سرکار برطانیہ کو پہنچائیں، مگر بعداز تحقیق انگریزوں کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ آپ کو جھکانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ چنانچہ لفٹیننٹ گورنر نے کمشنر راولپنڈی کو حکم دیا کہ کسی روز خود جا کر پیر صاحب سے ملیں تاکہ ان کے وسیع حلقہ اثر میں بے چینی اور کشیدگی کو ختم کیا جاسکے۔
اس حکم کے بعد کمشنر راولپنڈی نے خود جانا پسند کیا اور مظفر خان اور پشاور کے میاں کریم بخش سیٹھی کے ہمراہ گولڑہ شریف پہنچے۔ حضرت صاحبؒ سے مل کر تفصیل سے گفتگو کی اور اس کشیدگی کو ختم کیا۔
درج بالا سطور میں آپ نے جس واقعہ کو ملاحظہ فرمایا ہے اور جس کشیدگی کی بات ہوئی ہے، یہ کشیدگی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ انگریز حکمران اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کے عادی تھے۔ ان کو یہ بات بڑی اچھی طرح معلوم تھی کہ اگر انہوں نے حضرت صاحب سے سختی برتی تو مسلمانوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کو مسلمانوں کے جذبات معلوم تھے کہ ان کے جذبات مذہبی انداز میں کسی طرح بے قابو ہو جاتے ہیں، اس لیے گورنر نے کمشنر کو پیر صاحبؒ کے پاس خود جانے کا کہا۔
مگر کمشنر کا حضرت صاحبؒ کے پاس جانا محض اسی لیے تھا کہ آپ کے ارادت مندوں کو کسی قسم کے اشتعال سے باز رکھا جائے۔ ورنہ دہلی دربار میں شمولیت سے انکار کے بعد انگریزوں کو کسی بہانہ کی تلاش تھی، جس سے وہ اپنا جذبہ انتقام پورا کرسکیں۔ بارہا آپؒ پر یہ الزام لگتا رہا کہ آپ مواضعات میرا بادیہ، میرا کو اور مضافات گولڑہ کے چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہیرو ہیں اور مفروروں اور ڈاکوؤں کے بچوں اور گھر والوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ بات پیر صاحبؒ کو مشتعل کرنے والی تھی۔ حضرت صاحبؒ نے کبھی تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment