اولیاکرام کا شیوہ

ایک بزرگ رو رہے تھے۔ کسی نے پوچھا: کیوں رور ہے ہیں؟ جواب دیا کہ بھوک لگی ہوئی ہے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ باہر سڑکوں پرواویلا کررہے تھے یا لوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے۔ بس اپنے حجرے میں ہی آنسو بہا رہے ہوں گے) واقعی ان حضرات کو اپنی ہستی پر بالکل نظر نہیں ہوتی۔ اگر وہ بزرگ اپنی کچھ شان سمجھتے تو روٹی کیلئے ہرگز نہ روتے۔
کیونکہ یہ خیال ہوتا کہ روٹی کے لئے رونا ہماری شان کے خلاف ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہوگا تو کیا کہے گا وغیرہ۔ غرض انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ بھوک کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ شرم نہیں آتی، بچوں کی طرح رو رہے ہو۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ نے تو بھوک اس لئے لگائی ہے کہ وہ میرا رونا دیکھیں، جب وہ ہمارا رونا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ روئیں۔
درحقیقت ہر بزرگ کا اپنا حال ہوتا ہے۔ ان کا ظاہر و باطن روشن صاف اور ایک ہوتا ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ کسی کے گھر گئے، کھانے کا ٹائم بھی ہے، بھوک بھی ہو، صاحب خانہ نے پوچھا کہ کھانا کھانا ہے؟ بعض کا جواب ہوتا ہے جی بھوک نہیں۔ حالانکہ بھوک لگی ہوتی ہے اور جھوٹ بولا جاتا ہے۔ نیت یہ ہوتی ہے کہ میں نے اگر کہہ دیا کہ روٹی کھانی ہے تو گھر والا کہے گا گھر سے بھوکا آیا ہے وغیرہ۔
حضورؐ نے ارشاد فرمایا: بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو، یعنی اگر کھانے پینے کی حاجت ہو تو کھانا کھالو۔ پھر بزرگوں کی باتوں کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہیئے۔ عارف رومیؒ فرماتے ہیں:
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ مانند در نوشتن شَیر و شِیر
ترجمہ: پاک ہستیوں کے کاموں پر اپنے کاموں کو قیاس مت کرو۔ دیکھو شَیر اور شِیر (دودھ) ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں، مگر دونوں میں حقیقت کے اعتبار سے کس قدر فرق ہے۔ یعنی شیر تو جنگل کا درندہ ہے اور دودھ تو انسانی زندگی کی عمدہ غذا ہے۔ جس کے بغیر زندہ رہنا ہی محال ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ بیمار تھے۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت
کیسا مزاج ہے؟ آپؓ نے فرمایا: طبیعت اچھی نہیں ہے۔ دیکھئے، بظاہر یہ کلمہ استقلال کے خلاف معلوم ہوتا ہے، مگر عوام عارفین کی حالت کیا سمجھ سکتے ہیں۔ عوام تو اولیا کی اس حالت کو بس یوں ہی سمجھ سکتے ہیں، کہ آدمی پتھر کا ہوجائے، کچھ حس ہی نہ رہے، بلکہ فطرت کے خلاف اس کے افعال صادر ہوں۔ بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کا بچہ مر گیا اور وہ ہنس پڑے۔
عوام الناس ایسی حکایات وواقعات کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جی بڑے کامل بزرگ ہیں کہ بچے کی وفات پرذرا روئے نہیں اور اسی میں کمال اور بزرگی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ از روئے شریعت محمدیؐ کامل اور بزرگی کی حالت وہ ہے، جو مشابہ ہو سرور کائناتؐ کی حالت کے۔ آپؐ کے پیارے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ کا (سولہ یا سترہ مہینے کی عمر میں) انتقال ہوگیا، تو آپؐ روئے اور آنسو بہائے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت میں غم نہ کرنا کمال کی بات نہیں، تو آج کل لوگ اس کو کمال اور بزرگی سمجھتے ہیں تو کیا بزرگی کے یہ معنی ہیں کہ بات کا اثر ہی نہ ہو۔ حالانکہ بزرگوں پر تو ہرشے کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
البتہ حدود سے باہر ہونا جزع فزع کرنا جائز نہیں اور رب تعالیٰ پر گلہ و شکوہ کرنا گناہ ہے۔ اولیا ہمیشہ اعتدال پر ہوتے ہیں یہ حضرات حد سے تجاوز نہیں فرماتے، ان کا ادراک بہت صحیح ہوتا ہے۔ حضورؐ ایک مرتبہ خطبہ فرمارہے تھے۔ آپؐ کے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کھیلتے ہوئے آگئے۔ آپؐ فرط محبت سے خطبہ چھوڑ کر منبر سے اتر آئے اور دونوں سے پیار کیا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔
ایک دفعہؐ کو بچوں سے پیار کرتے ہوئے ایک صحابیؓ نے دیکھا اور کہا: حضور! میرے دس بچے ہیں، میں ان سے کبھی پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ اگر حق تعالیٰ ہی تمہارے دل سے محبت نکال لیں تو میں کیا کرلوں گا۔ بہر حال ان صحابیؓ نے حضورؐ سے یہ فرمان مبارک سن لیا تو پھر اس پر عمل کیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ بیماری میں درد کی وجہ سے کچھ آواز نکال رہے تھے، کراہ رہے تھے اور جو بزرگ عیادت اور بیمار پرسی کے لئے گئے تھے، انہوں نے پوچھا کہ آپؓ کا مزاج کیسا ہے؟ آپؓ نے فرمایا اچھا نہیں۔ وہ بولے: آپؓ بے استقلال کی بات فرماتے ہیں۔ حضرت عمر فارقؓ نے فرمایا: کیا میں حق تعالیٰ کے روبرو پہلوان بنوں۔ وہ ضعیف و کمزور بنائیں اور میں قوی و طاقت ور بنوں۔ جب حق تعالیٰ نے عجزو انکساری کیلئے بیمار کیا ہے، تو میں کس لئے قوی بنوں (کیا عارفانہ جواب ہے)
یہ ہیں حضرات کاملین وعارفین۔ یہ ہستیاں گویا مزاج شناس ہوتے ہیں، وہی کچھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں جس میں حق تعالیٰ شانہ کی رضا دیکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اس وقت یہ مناسب اور فلاں وقت وہ مناسب ہے۔ (فضائل صوم صلوٰۃ ص 47-46)

Comments (0)
Add Comment