دوسرا حصہ
ضیا ءالرحمن چترالی
مصر کی اس عمارت کے پاس موجودلوگوں سے میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ عمارت مسجد ہے، اندر موجود لوگ مسلمان ہیں اورعبادت کر رہے ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار مسجد دیکھی تھی، سچ کہوں تو مسلمان نام کی جماعت کو ہی پہلی بار دیکھا تھا، پتہ نہیں کیوں دوسرے دن میں کھچی کھچی پھر انہی وقتوں میں مسجد کی طرف چلی گئی، میں دوبارہ مسلمانوں کی اس جماعت کو عبادت کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی، انہیں منظم طریقے سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے اس وقت قلبی سکون کا احساس ہوا تھا اور عبادت کے لیے ان لوگوں کی پاکبازی و برابری پر مجھے رشک آیا تھا۔
نماز ختم ہونے کے بعد جب لوگ مسجد سے باہر آئے تو میں نے ایک دو لوگوں سے ان کی عبادت سے متعلق بات چیت کی، مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے، وہ بہت ہی نیک طبیعت اور سادہ مزاج لوگ تھے، وہ مجھے بہن اور بیٹی کہہ کر بات کر رہے تھے، جب کہ میں نے اپنی اس وقت کی عمر تک اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے اوپر بدنظر پایا تھا، یہاں تک کہ اپنے لیے بیٹی اور بہن جیسے خلوص بھرے الفاظ میں نے کسی سے نہیں سنے تھے۔
مصر میں شوٹنگ کے ختم ہونے کے بعد میں فلمی یونٹ کے ساتھ اٹلی لوٹ آئی۔ اٹلی میں میرا ایک دوست شوہر کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا۔ گھر واپس آنے کے بعد میں نے اس رشتے کی حرمت پر بہت غور کیا۔ کافی غوروفکر کے بعد اب اس رشتے میں مجھے خرابی کا احساس ہونے لگا۔ اس مسجد میں لوگوں کی عبادت، میرے سوال پر نیچی نظریں رکھ کر ان کا مجھ سے بات کرنا اور بیٹی بہن کہہ کر مخاطب ہونا، اس سب نے مجھے ان مسلمانوں سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
میرے قلب پر ان کی عبادت و اخلاق کا بہت اچھا اثر پڑا۔ مجھے اپنے منہ بولے شوہر کے رشتے سے گھن آنے لگی اور میں نے اس سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی، میں فلموں کے مزید معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی، میں اپنے گھر کے خاموش حصے میں بیٹھ کر ان مسلمانوں کی عبادت سے متعلق گھنٹوں سوچتی رہتی۔ میرے ذہن میں مصر کی وہ چھوٹی سی مسجد، ان سادہ سے مسلمانوں کے اخلاق، ان کی عبادت کی سادگی، نماز میں چھوٹے بڑے کی برابری، ان لوگوں کا مجھے نظر اٹھا کر نہ دیکھنا، میرے لیے بہن اور بیٹی جیسے پاک الفاظ کہنا یہ ساری باتیں میرے قلب وذہن پر کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھیں کہ میں تصور ہی تصور میں بار بار مصر کی اسی مسجد میں پہنچ جاتی۔
ایک روز میں ایک راستے سے گزر رہی تھی کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی، جس پر لکھا ہوا تھا ’’مرکز اسلام روم‘‘۔ میں اس عمارت میں داخل ہو گئی، وہاں موجود لوگ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آئے، میں نے ان سے دینِ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ کتابیں طلب کیں، انہوں نے ایک پیکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا، جس پر لکھا ہوا تھا :
’’بھائیوں کی جانب سے اپنی محترم بہن کی خدمت میں ایک ہدیہ‘‘
میں نے گھر پہنچ کر جب یہ پیکٹ کھولا تو اس میں سے اطالوی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور کچھ کتابچے برآمد ہوئے۔ (جاری ہے)