ابوالقاسم خفافؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شبلیؒ، ابوبکر بن مجاہدؒ کی مسجد میں گئے۔ ابوبکرؒ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ ابوبکرؒ کے شاگردوں میں اس کا چرچا ہوا۔ انہوں نے استاذ سے عرض کیا کہ آپ کی خدمت میں وزیراعظم آئے ان کیلئے تو آپ کھڑے ہوئے نہیں، شبلیؒ کیلئے آپ کھڑے ہوگئے؟
انہوں نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کیلئے کیوں نہ کھڑا ہوں جس کی تعظیم حضور اقدسؐ خود کرتے ہوں۔ اس کے بعد استاذ نے اپنا ایک خواب بیان کیا اور یہ کہا: رات میں نے حضور اقدسؐ کی خواب میں زیارت کی تھی، حضور اقدسؐ نے خواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ کل کو تیرے پاس ایک جنتی شخص آئے گا، جب وہ آئے تو اس کا اکرام کرنا۔
ابوبکرؒ کہتے ہیں کہ اس وقعہ کے دو ایک دن کے بعد پھر حضور اقدسؐ کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضور اقدسؐ نے خواب میں ارشاد فرمایا: اے ابوبکر خدا تمہارا بھی ایسا ہی اکرام فرمائے جیسا کہ تم نے ایک جنتی آدمی کا اکرام کیا۔ میں نے عرض کیا: حضور! شبلی کا یہ اعزاز آپ کے ہاں کس وجہ سے ہے؟
حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ پانچوں نمازوں کے بعد یہ آیت پڑھتا ہے: لَقَدْ جَأئَ کُمْ رَسُوْلٌ… اور اسّی برس سے اس کا یہی معمول ہے۔ (بدیع)
یَا رَبَِ صَلَِ وَسَلّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلّھم
نزہۃ المجالس میں لکھا ہے کہ ایک صاحب کسی بیمار کے پاس گئے (ان کی نزع کی حالت تھی) ان سے پوچھا کہ موت کی کڑواہٹ کیسی مل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہو رہا ہے، اس لیے کہ میں نے علما سے سنا ہے کہ جو شخص کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے، وہ موت کی تلخی سے محفوظ رہتا ہے۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلَّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلَّھِم
نزہۃ المجالس ہی میں لکھا ہے کہ بعض صلحا میں سے ایک صاحب کو حبس بول ہو گیا۔ انہوں نے خواب میں عارف حضرت شیخ شہاب الدین بن رسلانؒ کو جو بڑے زاہد اور عالم تھے، دیکھا اور ان سے اپنے مرض کی شکایت و تکلیف کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا تو تریاق مجرب سے کہاں غافل ہے، یہ درود پڑھا کر:
اللھم صل وسلم و بارک علی روح سیدنا محمد فی الارواح وصل وسلم علی قلب سیدنا محمد فی القلوب وصل و سلم علی جسد محمد فی الاجساد و صل و سلم علی قبر سیدنا محمد فی القبور
خواب سے اٹھنے کے بعد ان صاحب نے اس درود کو کثرت سے پڑھا اور ان کا مرض زائل ہو گیا۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلَّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلَّھِم
حافظ ابو نعیمؒ حضرت سفیان ثوریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جارہا تھا۔ میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ہے یا رکھتا ہے تو یوں کہتا ہے:
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد
میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ہے؟ (یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا سفیان ثوریؒ۔ اس نے کہا کیا عراق والے سفیان؟ میں نے کہا ہاں! کہنے لگا تجھے خدا کی معرفت حاصل ہے۔ میں نے کہا ہاں ہے۔ اس نے پوچھا کس طرح معرفت حاصل ہے؟ میں نے کہا رات سے دن نکالتا ہے، دن سے رات نکالتا ہے، ماں کے پیٹ میں بچے کی صورت پیدا کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ تو نے کچھ نہیں پہچانا۔
میں نے کہا پھر تو کس طرح پہچانتا ہے؟ اس نے کہا کسی کام کا پختہ ارادہ کرتا ہوں، اس کو فسخ کرنا پڑتا ہے اور کسی کام کے کرنے کی ٹھان لیتا ہوں، مگر نہیں کر سکتا۔ اس سے میں نے پہچان لیا کہ کوئی دوسری ہستی ہے، جو میرے کاموں کو انجام دیتی ہے۔ میں نے پوچھا یہ درود کیا چیز ہے؟ اس نے کہا میں اپنی ماں کے ساتھ حج کو گیا تھا۔ میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مرگئی) اس کا منہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا، جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے۔ اس لیے میں نے خدا جل شانہٗ کی طرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکھا کہ تہامہ (حجاز) سے ایک ابر آیا، اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا۔ اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا، اس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا؟
انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدؐ ہوں۔ میں نے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو اللھم صل علی محمد و علی آل محمد پڑھا کر۔ (نزہتہ)
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلَّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلَّھِم
(جاری ہے)