جزیرہ لارک چھوڑنے سے قبل تفتیش سے گزرنا پڑا

قسط نمبر: 61
ماہی پروری کے افسر ڈاکٹر اسدی نے تعارف کے بعد سب سے پہلا سوال مجھ سے یہ دریافت کیا کہ لارک حکومت ایران کی وزارت دفاع کا ایک انتہائی حساس مقام ہے۔ کیا آپ نے یہاں آنے کیلئے متعلقہ اداروں سے ضروری اجازت نامے لے لیے ہیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ایران میں وارد ہونے کے بعد تو میں نے کوئی اجازت نامہ نہیں لیا ہے، البتہ حکومت ایران کے اسلام آباد کے سفارتخانے سے بشکل ویزا میں نے ہرمز، لارک اور ایران کے دیگر نمک کے علاقوں کے وزٹ کے اجازت نامے لیے ہوئے ہیں۔ وہ بولے کہ یہ تو کافی نہیں ہے۔ میرا جواب تھا کہ یہ بات ایران کے سفارتخانے کے ویزا افسر کو مجھے اسلام آباد میں بتانی چاہیے تھی۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے اور کم از کم اس مسئلے پر مزید کوئی بات نہ کی۔ پھر گویا ہوئے کہ بحیثیت ایک جیولوجسٹ آپ نے لارک میں کیا کام کیا اور اس سے کیا نتائج اخذ کیے؟ میں سمجھ گیا کہ اب میں زیر تفتیش ہوں اور اب مجھے محتاط لہجے میں اور صرف منطقی بات کرنی ہوگی، ورنہ کسی مصیبت میں پھنسنے کا قوی امکان ہے۔ بس یہ سوچ کر اور ذہن میں ایک پلان بنا کر میں نے عرض کیا کہ میرا لارک میں آنے کا خواب کافی پرانا ہے۔ میں پاکستانی معدنی ترقیاتی کارپوریشن اسلام آباد کا سابقہ چیف جیولوجسٹ ہوں اور 1980ء سے 1985ء تک میں نے صرف پاکستان کے نمک کے ذخائر کی تلاش اور ترقیات کا کام کیا ہے۔ اسی زمانے میں مجھے ایک فرانسیسی جیولوجسٹ کا تحقیقی مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے پاکستان کی سالٹ رینج کی کھیوڑہ فارمیشن جو نمک کی فارمیشن کے فوراً اوپر ہے، کو لارک جزیرے کی ہرمز فارمیشن، جو ہرمز میں نمک کے فوراً اوپر والی فارمیشن ہے، سے ناطہ جوڑا تھا یا اس سے کوریلیٹ (correlate) کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ دونوں فارمیشنیں ایک ہی زمانے کی اور ایک بڑے ڈپازیشنل بیسن کی پیداوار ہیں۔ اور اب ہرمز اور لارک دونوں جزیروں کی جیولوجی کا مطالعہ کرنے کے بعد میں فرانسیسی جیولوجسٹ جناب جے ڈبلیو شروڈر کے خیالات کی تائید کرنے پر مجبور ہوں۔ بیان جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ میری دوسری دریافت یہ ہے کہ ہرمز اور لارک سالٹ ڈوموں کی کیپ راکس جیسی کیپ راک (cap rock) شاید دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ اور لارک کی کیپ راک تو ہرمز کی کیپ راک سے بھی عجیب تر ہے۔ ہرمز کی کیپ راک تو بطور خام لوہا بھی استعمال ہو سکتی ہے اور کسی حد تک لارک کی کیپ بھی، مگر لارک کی کیپ راک میں تجارتی پیمانے پر قیمتی پتھر (gem stones) ملنے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
میں نے اپنی دریافتوں کا تیسرا نکتہ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ لارک میں یہ جو سرخ اور کالے رنگ کے پتھر ہیں، یہ سب لوہے کے پتھر سمجھے جاتے ہیں۔ مگر میرا ابتدائی مشاہدہ یہ ہے کہ سرخ اور سرخی مائل کالا اور صرف کالا رنگ زیادہ تر مینگینز یا مینگنیز اور لوہے کی آمیزش والی معادن کی وجہ سے ہے۔ پھر میں نے اپنے جمع کردہ کچھ پتھروں کے نمونے بیگ سے نکال کر دکھائے کہ کچھ کو میرا جیبی مقناطیس پکڑتا تھا اور کچھ کو نہیں۔ جس کو مقناطیس نہیں پکڑتا تھا یا اپنی طرف نہیں کھینچتا تھا ان پتھروں کے بارے میں ڈاکٹر اسدی اور ان کے اسٹاف کے لوگوں کو بتایا کہ میرا خیال ہے کہ یہ مینگنیز کے فلزے (ores of mangenese) ہیں اور مینگیز صنعت فولاد سازی کا ایک اہم خام مال ہے۔ اس سے ریل اسٹیل (rail Steel) اور دیگر اقسام کے فولاد بنائے جاتے ہیں۔ (مگر بعد میں اسلام آباد کی تجزیہ گاہوں میں ان نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ تمام نمونے خام لوہے کی ہی مختلف اقسام کے ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی مینگینز کی مقدار اتنی نہ تھی کہ وہ مینگینیز کا فلزہ کہلا سکے)۔ اس امر نے ڈاکٹر اسدی کو میری اصلیت کے بارے میں کافی حد تک قائل کیا۔ انہوں نے مقناطیس کو میرے ہاتھ سے لے کر اور پھر مختلف نمونوں کو اس سے چیک کرنے کے بعد اپنے لوگوں کو بتایا کہ بظاہر ایک جیسے نظر آنے والے پتھروں میں بنیادی طور پر کتنا بڑا فرق ہے؟
قارئین کرام! میرے چھوٹے سے مقناطیس نے زندگی میں کئی بار یا تو میری لارج رکھی ہے یا کئی مشکل مرحلوں سے مجھے عزت کے ساتھ باہر نکالا ہے۔ پہلا اور نسبتاً حالیہ واقعہ افغانستان کا ہے اور یہ واقعہ میں نے اپنی پہلی کتاب ’’روداد افغانستان‘‘ میں بھی تحریر کیا ہے۔
ہوا یہ کہ ستمبر 1999ء میں جب میں نے قندھار کے شمال میں شاہ رگ کے علاقے میں سفید رنگ مرمر یا کاربوناٹائٹ کے علاقے میں اپنا پہلا ارضیاتی دورہ کیا تو طالبان حکومت کے رئیس معاون وضائع برائے قندھار و ہلمند مولوی اکبر شاہ جمالی مولائی بھی میرے ساتھ تھے۔ بلکہ یہ دورہ ان ہی کی سرکاری گاڑی میں کیا گیا تھا، جس کی مرمت اور پیٹرول کا خرچہ میرے ذمے تھا۔ ایک مقام پر جبکہ مولوی صاحب اپنے بھاری ڈیل ڈول کے باعث اور ان کی ذاتی دلچسپی یا مصروفیات کا سامان نہ ہونے کے باعث اور پہاڑی راستوں پر چلتے ہوئے تھکن کے باعث، برہم ہوئے اور واپس چلنے کا حکم صادر فرما دیا، اس وقت میں نے اپنے جیبی مقناطیس کو ان کے حوالے کر دیا اور اس کا کام اور استعمال بھی سمجھا دیا۔ مولوی صاحب کو اس وقت تک یہ تو معلوم تھا کہ مقناطیس لوہے یا لوہے سے بنی اشیا کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مگر ان کو یہ نہ معلوم تھا کہ یہ بعض قدرتی پتھروں کو بھی بالخصوص وہاں کی (صحرائے بوم کی) ریت میں بکھرے کالے دانوں کو اور اسی علاقے میں پائے جانے والے سرخ یا گلابی گرینائٹ کے پتھر کو بھی (کہ جس میں میگناٹائٹ کے دانے بکھرے ہوتے ہیں) اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ان معلومات کے حصول نے ان کے لیے مقناطیس کو ایک اہم اور دلچسپ شے بنا دیا۔ اس مرحلے کے بعد وہ میرے بڑے کارآمد مددگار بن گئے۔
دوسرا قابل ذکر واقعہ نومبر 1966ء کا ہے، جب میں گلگت سے پُنیال، گپس، یاسین اور ڈارکوت کے ارضیاتی دورے پر گیا ہوا تھا۔ اس عرصے میں ایک رات میں نے گپس میں اس زمانے میں راجہ گپس و یاسین جناب حسین علی خان مقپون کے دولت کدہ پر گزاری۔ مجھ حقیر کے اعزاز میں راجہ صاحب نے ایک زبردست عشایئے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد عام گپ شپ کی محفل جمی۔ اس زمانے میں کیونکہ میں سیارہ ڈائجسٹ کیلئے گلگت کے شکاریوں پر ایک مضمون لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا (یہ مضمون سیارہ ڈائجسٹ کے مارچ 1978ء کے شمارے میں بعنوان ’گلگت کے شکاری‘ شائع ہو چکا ہے) اس لیے میں نے راجہ صاحب سے درخواست کی کہ اگر اس محفل میں گلگت کے کوئی روایتی شکاری صاحب موجود ہوں اور ان کی شکاری زندگی میں کوئی خاص واقعہ یا واقعات پیش آئے ہوں تو برائے مہربانی وہ مجھے سنائے جائیں۔ معلوم ہوا کہ اس محفل میں کئی نامی گرامی شکاری موجود تھے۔ ان میں خود راجہ صاحب اور ان کے قریبی عزیز حاجی سلطان ولی خان صاحب بھی شامل تھے۔ اس مجلس میں حاجی سلطان ولی خان صاحب نے اپنی شکاری زندگی کے دو اہم اور نہایت دلچسپ مگر رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات سنائے۔ آخر میں قرعہ فال میرے نام نکلا کہ میں بھی ہر فیلڈ ٹرپ میں اپنی اسپین (Spain) ساختہ ذاتی دو نالی بندوق رکھتا تھا اور اپنے کالا باغ (ضلع میانوالی) کے جیپ ڈرائیور کے طفیل ایک ماہر شکاری بھی مشہور ہوگیا تھا۔ میں نے عرض کی کہ دوستو، میں آپ کی طرح مارخوروں اور برفانی چیتوں کا شکاری نہیں ہوں نہ ہی میرے بس کا یہ کام ہے، بلکہ میں تو محض کبوتروں اور فاختاؤں کا شکاری ہوں کہ جب فیلڈ میں آلو، دال یا راجماہ کی پھلیاں کھاتے کھاتے دل اکتا جاتا ہے تو کبوتر یا فاختہ کے گوشت سے کھانے میں ایک صحت افزا تبدیلی آجاتی ہے۔ ہاں میں ایک چھوٹا سا جادو ضرور جانتا ہوں اور آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کرنے پر تیار ہوں۔ سب حاضرین میرے جادو کے مظاہرے کے سراپا مشتاق بن گئے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے ایک چھوٹی میز اور ایک میز پوش بہم پہنچایا جائے اور فوراً ہی یہ دونوں اشیا میرے سامنے تھیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے سامان کے اسٹیشنری بکس سے اسٹیل کے تار سے بنے چند کاغذ کے کلپس نکالے اور میز پر کہ جس پر میز پوش بچھا تھا ڈال دیئے اور میں خود میز سے لگ کر بیٹھ گیا اور اپنا ایک ہاتھ میز کے نیچے کر لیا۔ بعد ازاں میں حاضرین سے یوں مخاطب ہوا کہ میرے جادو یا میری آنکھوں کی طاقت کا کمال یہ ہے کہ میں فولاد کے تار سے بنے ہوئے پیپر کلپس (paper clips) کو اس میز پر اپنی نظر کی طاقت سے ادھر ادھر یا جدھر آپ کہیں گے، اس طرف چلاؤں گا۔ اس کے بعد میں نے راجہ صاحب سے عرض کیا کہ آپ فرمائیے کہ ان کلپوں کو میں میز کے کس حصے کی طرف راند کر لے جاؤں؟ راجہ صاحب نے فرمایا کہ ان کو اپنے بائیں سے داہنے ہاتھ کی طرف لے جائیں۔ فوراً ہی کلپوں نے بائیں سے دائیں حرکت کرنا شروع کر دیا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ سرک کر نہیں جا رہے تھے بلکہ ردل کرتے ہوئے اور باقاعدہ ٹھک ٹھک کی آواز بلند کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ حاضریں دم بخود رہ گئے اور ان بھولے بھالے انسانوں میں سے بعض کی آنکھوں میں تو صاف خوف جھلک رہا تھا۔ قصہ مختصر، حاضرین مجلس نے کلپوں کو ہر طرف چلوا کر دیکھا اور میری آنکھوں کی طاقت کا کرشمہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بالآخر میں نے حاضرین کو بتایا کہ یہ سب نہ کوئی جادو ہے نہ میری آنکھوں کی طاقت کا مظہر ہے، بلکہ یہ کرشمہ ہے میرے اس چھوٹے سے مقناطیس کا، جس سے میں پتھروں کی مقناطیسیت چیک کرتا ہوں۔ میں نے میز کے نیچے سے اپنا ہاتھ معہ مقناطیس باہر نکال کر تمام حاضرین کو دکھایا اور پھر پوری ٹِرک کو ان کے سامنے دہرایا تو اب سب لوگ ہنسنے لگے اور خوب ہنسے۔ قارئین کرام! اس پر آپ ہنسے ہوں یا نہ ہنسے ہوں، مگر اب ہم واپس چلتے ہیں لارک جزیرے میں ڈاکٹر اسدی صاحب کے پاس۔
میرے پتھروں کے نمونے چیک کرنے اور مجھ سے سوال جواب کرنے کے بعد جب ان کو بظاہر میرے ایک پروفیشنل جیولوجسٹ ہونے پر اور ایک جاسوس نہ ہونے کا یقین آگیا تو پھر ان کا موڈ حاکمانہ نہ رہا بلکہ خاصا دوستانہ ہوگیا۔ پاکستان میں میری کمپنی، اس میں میرے عہدے اور میری تنخواہ کی بابت معلوم کرنے کے بعد مجھ سے انہوں نے میری عمر پوچھی۔ میں نے بتایا کہ میری عمر اس قت پینسٹھ سال ہے۔ یہ سن کر تو گویا تعجب سے وہ اچھل پڑے۔ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میری عمر اس وقت چھیالیس سال ہے اور میں تم سے بزرگ تر لگتا ہوں۔ میرے سب بال سفید ہوگئے ہیں اور تمہارے اب بھی خاصے بال کالے ہیں۔ میں نے کہا بالوں کا کیا ہے۔ بعض لوگوں کے جلد سفید ہو جاتے ہیں اور بعض کے دیر میں۔ پھر اسدی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہارا سال پیدائش کون سا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ 1936ئ۔ وہ بولے کہ میرا 1955ء ہے۔ بہرحال اس مجلس کو ہم لوگوں نے ختم کیا اور سب لوگ کشتی کی طرف چلے۔ چلتے ہوئے میں نے اسدی صاحب سے کہا کہ میرا مسئلہ بندر عباس پہنچنے کا ہے۔ کیا آپ میری مدد فرما سکیں گے؟ اسدی صاحب نے کہا کہ کیوں نہیں، آپ ہمارے ساتھ ہی بندر عباس جائیں گے۔ پھر اسدی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے دوپہر کا کھانا کھا لیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، بلکہ کافی دیر سے پانی بھی نہیں پیا ہے اور اس وقت میرا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہی ہے۔ اسدی صاحب بولے کہ فکر نہ کیجئے، ہمارے ساتھ تازہ بنایا ہوا کھانا اور صاف پانی موجود ہے۔ خیر بفضل تعالیٰ میں اپنے مہربان میزبانوں کے ساتھ کشتی پر مع اپنے سامان کے سوار ہوگیا۔ مگر ریذیڈنٹ افسر صاحب جو اغلباً مقامی تھے اور لارک ہی ان کا ہیڈ کوارٹر تھا، وہ کنارے پر ہی رک گئے اور وہیں سے ہمیں خدا حافظ کہا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment