عمران خان
ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ پورٹ قاسم سے قلیل عرصے میں اسمگلروں نے 5 کسٹم افسران کی ملی بھگت سے 100 سے زائد کنٹینرز کلیئر کروالئے۔کسٹم پریوینٹو نے اسمگلروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں پورٹ قاسم کے 5 اہم افسران کے زیر استعمال نمبروں کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ پانچوں افسران اسمگلروں اور ان کے کارندوں سے رابطے میں تھے۔ اسمگلروں نے نہ صرف بھاری رشوت کے عوض ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کے ایگزامنیشن کے اپریزنگ افسران کو ان کے ڈپٹی کمشنر ایگزامنیشن سمیت خریدا، بلکہ اسمگلنگ کیلئے بنائے گئے پورٹ قاسم کسٹم کے خصوصی شعبے ’’کسٹم انٹیلی جنس یونٹ‘‘ سی آئی یو کے انچارج پرنسپل اپریز کو بھی معانت کرنے پر مجبور کیا، جن سے تحقیقاتی ٹیم نے بیانات لے لئے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں کلکٹر کسٹم پورٹ قاسم اپریزمنٹ چوہدری جاوید اور چیف کلکٹر کسٹم سائوتھ عبدالرشید شیخ کی ناک کے نیچے ہوتی رہیں۔ تاہم انہوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا اور بالآخر کسٹم پریونٹو کے چھاپوں میں تمام صورت حال سامنے آئی، جس کی ابتدائی رپورٹ چیئرمین ایف بی آر اسلام آباد اور ممبر کسٹم اسلام آباد آفس کو ارسال کر دی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں کسٹم پریونٹو کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر پورٹ قاسم سے کلیئر ہوکر ماڑی پور اور اسٹیل ٹائون میں قائم 2 گوداموں میں جانے والے 13 کنٹینرز کو چھاپہ مار کر قبضے میں لیا، جس پر 9 ستمبر 2018ء کو ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ دستاویزات کے مطابق مذکورہ 13 کنٹینر نیو چالی میں آر کے اسکوائر میں قائم الوحید امپیکس نامی کمپنی کے نام پر متحدہ عرب امارات سے منگوائے گئے تھے۔ اس کھیپ میں شامل کنٹینرز کو کمپنی کی جانب سے کلیئرنس کے لئے جمع کرائی گئی دستاویزات میں ’’بی بی سی کٹنگ پیپر اسکریپ‘‘ ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے اندر ممنوعہ اشیا اسمگل کی گئی تھیں۔ بعد ازاں تحقیقات میں معلوم ہوا کہ الوحید کمپنی کے مالک وحید کو عرفان نامی ’’لپو‘‘ کی مدد سے دو بھائیوں اظہاراللہ بھٹی اور احسان اللہ بھٹی نے اپنی کمپنی کے ذریعے مذکورہ سامان منگوانے پر راضی کیا تھا اور اسے ایک کنٹینر کے عوض ایک لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ جس کے بدلے میں وحید نے سامان منگوانے کے لئے اپنی کمپنی کے کوائف فراہم کئے تھے۔ مزید تحقیقات میں سامنے آیا کہ اس پوری اسمگلنگ کے پیچھے ماسٹر مائنڈ سمیع اللہ نامی شخص ہے، جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں وہ کراچی میں کام کر رہا تھا۔ اسی شخص نے اظہاراللہ بھٹی اور احسان اللہ بھٹی کو اپنے لئے کام کرنے پر راضی کیا اور انہوں نے عرفان کی مدد سے کرپٹ کسٹم افسران کا تعاون حاصل کر کے مجموعی طور پر چار کمپنیاں رجسٹرڈ کروائیں اور ان کمپنیوں کے ناموں سے بینک اکائونٹ کھلوائے۔ یہ چاروں کمپنیاں کلیئرنگ ایجنٹ کے علاوہ امپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کر سکتی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق اس اسمگلنگ کے لئے عارضی انٹرنیٹ کنکشن خریدا گیا اور اس کنکشن کو ایک دوسرے شخص کی کمپنی میں ایکٹو کر کے وہاں سے سامان کلیئر کرنے کے لئے جی ڈی یعنی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات کسٹم کے وی بوک سسٹم میں داخل کی گئیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق کسی بھی سامان کی کلیئرنس کے لئے جب کوئی بھی کمپنی اپنی آئی ڈی سے کسٹم کے سسٹم میں جی ڈی فائل کرتی ہے تو اس وقت استعمال ہونے والے انٹرنیٹ کنکشن کی کمپنی کا نام اور آئی پی نمبر کے علاوہ لوکیشن کا ریکارڈ بھی کسٹم کے سسٹم میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ دستاویزات کے مطابق کسٹم پریونٹو اے ایس او کی ٹیم نے ضبط کئے جانے والے کنٹینرز میں اسمگلنگ ثابت ہونے کے بعد کمپنی کے ذریعے منگوائی جانے والی دیگر کھیپوں کا ریکارڈ حاصل کیا تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ پانچوں ملزمان کی ملی بھگت سے صرف چند مہینوں میں 9 بار کھیپیں بیرون ملک سے منگوائی گئیں اور ہر کھیپ میں 10 سے 13 کنٹینرز شامل تھے۔ یہ تمام کھیپیں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ پورٹ قاسم سے ہی کلیئر کرائی گئیں۔ جب اس پر مزید تحقیقات ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ یہ تمام کھیپیں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے دو ایگزامنیشن افسران اپریزنگ آفیسر صدا بہار اور اپریزنگ آفیسر محمد ادریس نے کلیئر کی تھیں اور ان کو ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ کے ڈپٹی کلکٹر ایگزامینیشن کی معاونت حاصل رہی تھی۔ اس پر تحقیقاتی ٹیم نے ان دونوں کسٹم افسران سے پوچھ گھ کی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ تمام کھیپیں ریڈ چینل سے کلیئر ہوئی تھیں۔ ریڈ چینل کسٹم کا وہ سسٹم ہے، جس کے ذریعے کلیئر ہونے والی کنسائنمنٹ پہلے ہی مشکوک ہوتی ہے اور قواعد کے تحت ایگزامیننگ افسر کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کھیپ کے تمام کنٹینرز کو مکمل طور پر کھول کر سارا سامان علیحدہ علیحدہ کرکے مکمل چیک کرے۔ اس فزیکل چیکنگ کے بعد مطمئن ہو کر کلیئرنس کی رپورٹ ڈی سی کو پیش کرے۔ جبکہ گرین چینل سے آنے والی کھیپ کو سرسری طور پر چیک کیا جاتا ہے، کیونکہ گرین چینل ان کمپنیوں کو دیا جاتا ہے جن کی ساکھ اچھی ہوتی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ دونوں کسٹم افسران نے ریڈ چینل والی کھیپ کے 13 کنٹینرز میں سے صرف ایک کنٹینر کو چیک کیا اور وہ بھی باہر سے سامان دیکھا اور کنٹینر واپس بند کرادیا۔ اس کا ان دونوں کسٹم افسران نے اعتراف کیا اور انکشاف کیا کہ جس وقت وہ جانچ پڑتال کر رہے تھے، اس وقت سامان کلیئر کروانے والی کمپنی کے دو نمائندے اظہاراللہ اور عرفان ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ دونوں غیر قانونی طور پر کنٹینر یارڈ میں بھی کسٹم افسران کے ساتھ ہی موجود رہے، حالانکہ اس جگہ پر غیر متعلقہ افراد کا داخلہ منع ہے۔ کسٹم کی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ مذکورہ دونوں کسٹم افسران کے علاوہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کے ڈپٹی کلکٹر ایگزامینیشن کا کردار بھی مشکوک پایا گیا۔ کیونکہ انہوں نے سرسری چیکنگ کی رپورٹ پر بھی کلیئرنس دینے کی حتمی اجازت جاری کردی تھی۔ اس کے علاوہ پورٹ قاسم پر قائم کردہ سی آئی یو یعنی کسٹم انٹیلی جنس یونٹ جو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ اگر اپریزمنٹ میں موجود ایگزامننگ افسران کوئی مشکوک کھیپ کلیئر کردیں تو اس یونٹ کے ذریعے اس کھیپ کا سراغ لگا کر اسے روکا جاسکے۔ اسی لئے اس یونٹ کے افسران کو تمام سسٹم میں رسائی دی گئی ہے کہ وہ ہر وقت بیرون ملک سے آنے والے سامان اور اس کو کلیئر کروانے والی کمپنیوں کی جانب سے داخل کردہ کوائف کو چیک کرسکیں اور سسٹم پر نگرانی رکھ سکیں۔ تاہم اس یونٹ کے انچارج یعنی پرنسپل اپریزر سلطان اورنگزیب کا کرادر بھی مشکوک سامنے آیا، جس پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان کے بیان کو بھی کیس فائل کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ دستاویزات سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مذکورہ تمام کسٹم افسران اور اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے موبائل فونز کا ریکارڈ حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ تمام لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ اسی لئے ان تمام افراد کا کال ڈیٹا ریکارڈ یعنی سی ڈی آر کو بھی تحقیقاتی فائل میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کسٹم پریونٹو کی جانب سے مذکورہ رپورٹ کسٹم آفیسر طیب کی جانب سے تحقیقات کے بعد تیار کی گئی ہے، جس میںٹیم کے دیگر افسران کی جانب سے کی گئی تفتیش کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ پورٹ قاسم کسٹم اپریزمنٹ کے افسران کی ملی بھگت سے ہونے والی یہ بدترین اسمگلنگ جس میں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، عین کلکٹر کسٹم اپریزمنٹ پورٹ قاسم چوہدری جاوید اور چیف کلکٹر سائوتھ عبدالرشید شیخ کی ناک کی نیچے ہوتی رہی۔ تاہم دونوں افسران کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، جس سے ان کے فرائض کی ادائیگی کے کردار پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ کسٹم پریونٹو اے ایس او کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ پورٹ قاسم کسٹم میں ہونے والی اس اسمگلنگ اور افسران کی ملی بھگت کے حوالے سے ابتدائی تفتیش پر مشتمل رپورٹ ممبر کسٹم اسلام آباد اور چیئرمین ایف بی آر کو بھی ارسال کردی گئی ہے۔ اسلام آباد آفس کے حکام ہی ملوث افسران کے خلاف مزید کارروائی کے احکامات جاری کریں گے۔