انڈونیشی مچھیرا 49روز تک بے رحم لہروں سے لڑتا رہا

احمد نجیب زادے
’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ کی مثال ایک بار پھر سچ ثابت ہوئی۔ انڈونیشیا کا مچھیرا 49 روز تک سمندر کی بے رحم لہروں میں گھرا رہنے کے باوجود زندہ سلامت بازیاب کرلیا گیا۔ انیس سالہ ادیلانگ کی نائو کا لنگر ٹوٹ گیا تھا، جس پر طوفانی ہوائیں اسے کھلے سمندر میں لے گئیں۔ خوراک اور میٹھے پانی سے محروم نوجوان کبھی کبھار ہونے والی بارش یا اپنے ہی پسینے سے حلق تر کرتا رہا۔ غذائیت کی کمی کے باعث اس کا وزن 15 کلو گرام کم ہوگیا۔ بالآخر اس سمندری خطے سے گزرنے والے ایک تجارتی جہاز نے اس نوجوان کی کشتی کو دیکھا تو اسے ریسکیو کیا۔ جکارتہ پوسٹ نے بتایا ہے کہ انیس سالہ ادیلانگ مچھلیاں پکڑنے کیلئے ساحل کے پاس اپنی چھوٹی سی ڈونگی میں بیٹھا تھا۔ لیکن اس کوبالکل بھی علم نہیں تھا کہ انڈونیشی ساحلوں پر اچانک اٹھنے والی تیز اور طوفانی لہریں کس قدر خوفناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی دوران ادیلانگ کی کشتی کو اچانک طوفانی ہوا اور لہریں دھکیل کر گہرے سمندر کی جانب لے جانے لگیں۔ اس خوفناک منظر کو دیکھتے ہوئے ادیلانگ نے کوشش تو بہت کی کہ وہ اپنی کشتی کو ساحل کی جانب پتواروں سے لے جائے، لیکن اس کی یہ جان توڑ کوشش تیز اور طاقتور سمندری لہروں کے سامنے بے کار ثابت ہوئی اور اس کی کشتی کو لہروں نے مسلسل کھلے سمندر کی جانب کھینچنا جاری رکھا۔ جس کے نتیجے میں اس نوجوان کی لکڑیوں کی بنی پرانے اسٹائل کی بادبانی کشتی سمندرکے اندر 2 ہزار ناٹیکل میل کے طویل فاصلے پر جا پہنچی۔ اس منظر سے خوف زدہ نوجوان کو ابتدائی گھنٹوں میں یہ تمام معاملہ کسی فلم کا سین لگا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اپنی کشتی کو ساحل کی جانب لے جائے، لیکن دو ہزار کلو میٹر دور سمندر میں اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، جس پر اس نے ہمت ہار دی اور سمندر کے سینے پر ڈولتی اپنی کشتی میں بیٹھا خدائی امداد کا منتظر رہا۔ اڑتالیس دن ہوگئے، لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ ادیلانگ کا کہنا ہے کہ ابتدائی دس دنوں تک اس کو کوئی خاص پریشانی نہیں محسوس ہوئی۔ لیکن دس دنوں کے بعد جب کوئی مدد نہیں آئی یا ریسکیو مشن نہیں دیکھا تو اس کو اپنی دردناک موت کا اندازہ ہوگیا اور وہ پریشان ہونا شروع ہوا۔ لیکن ایک موہوم امید تھی کہ کوئی اس کی مدد کو پہنچے گا۔ اپنی گفتگو میں ادیلانگ کا کہنا تھا کہ اس نے ریڈیو پر اپنے گم ہو جانے اور کشتی کے کھلے سمندر میں چلے جانے کا پیغام دوستوں کو دے دیا تھا۔ لیکن اس کا ننھا سا ریڈیو ساحل سے دس کلومیٹر کی دوری کے بعد اس کیلئے بے کار ہوگیا۔ برطانوی جریدے گارجین سے خصوصی انٹرویو میں انڈونیشی نوجوان نے بتایا کہ وہ جو تھوڑی بہت خوراک کشتی میں رکھی ہوئی تھی، وہ اسے استعمال کرتا رہا۔ لیکن تین دن تک احتیاط سے استعمال کرنے کے بعد وہ بھی ختم ہوگئی اور وہ ایک کین پانی پر دس دن تک گزارا کرتا رہا۔ اس کے بعد وہ بھوکا پیاسا رہا اور بیمار بھی ہوگیا۔ گیارہویں دن کے بعد اس نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا اور کبھی کبھار بارش ہو جانے کی صورت میں اس کا پانی جمع کرکے پیتا اور جب بارش نہیں ہوتی تھی تو وہ شدید گرمی میں اپنی قمیض نچوڑ کر پسینہ پیتا رہا۔ یوں اپنی زندگی کو بچانے میں کامیاب رہا۔ لیکن غذا نہ ملنے کے سبب انتہائی کمزور ہوگیا اور اننچاسویں دن جب اس علاقے سے گزرنے والے ایک تجارتی جہاز کے عملے نے اس کی کشتی کو یوں بے یار و مدد گار سمندر میں ڈولتے دیکھا تو اس کا احوال جاننے کیلئے سائرن بجائے۔ لیکن کشتی سے جب کوئی جواب نہ ملا تو جہاز والوں نے ایک چھوٹا اسٹیمر اتار کر اس کشتی کی جانب بھیجا تو اس امدادی کشتی کے عملے کو اندازہ ہوا کہ بے آسرا کشتی میں ایک نوجوان ادھ مری حالت میں موجود ہے۔ وہ شدید نقاہت کے سبب ہل بھی نہیں سکتا۔ اسی لئے اس نوجوان نے جہاز والوں کے سائرن کا کوئی جواب تک نہیں دیا تھا۔ جہاز والوں نے ادیلانگ کو مائع خوراک فراہم کی اور اسے جہاز کے ڈاکٹر کو دکھایا، جس نے اس کو ڈرپ وغیرہ لگائی اور مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ تین روز کے بعد جہاز جب انڈونیشیا کے بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو اس نوجوان کو اسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔

Comments (0)
Add Comment