امت رپورٹ
برطانیہ نے نائجیریا سے لوٹے گئے اربوں ڈالر دبا لئے ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے بھی اب تک یہ رقم نائجیرین حکومت کو واپس کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ صرف سوئٹزر لینڈ نے نائجیریا کو ایک ارب دو کروڑ ڈالر واپس کئے ہیں۔ تاہم یہ واپسی بھی سابق فوجی حکمران ثانی اباچا کے بیٹے کی رضا مندی سے ممکن ہو سکی۔ برطانوی پارلیمنٹ سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بیرون ملک بنائے گئے اثاثوں کی واپسی کے لئے جو مہم شروع کی ہے اور اس سلسلے میں نائجیریا کو غیر قانونی فنڈز کی واپسی کے جو حوالے دیئے جا رہے ہیں، یہ تمام عمل اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ چالاک مغربی اقوام یہ پیسہ اپنی معیشت کو چلانے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق نائجیریا پچھلے تین برس سے اسی نوعیت کی اپنی رقوم کی واپسی کے لئے دھکے کھا رہا ہے، لیکن تاحال اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ حکومت پاکستان کو سب سے پہلے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مختلف سیاست دانوں کی غیر ملکی بینکوں میں رکھی گئی رقم ناجائز طریقے سے کمائی گئی اور اسی رقم سے اثاثے بنائے گئے۔ یہ ثابت کرنے کے بعد اگر برطانوی حکام یا کوئی اور ملک یہ اثاثے اور رقوم ضبط بھی کر لیتا ہے تو پھر بھی ان سے یہ پیسہ نکلوانا ایک مشکل عمل ہے۔ اس وقت دنیا بھر سے آنے والا ناجائز پیسہ لندن کے بینکوں میں پڑا ہے۔ اس کے لئے سابق امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی ایکسپرٹ کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ صرف 2013ء کے دوران برطانیہ میں 27 ارب پائونڈ کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ اور یہ کہ نائجیریا سے لوٹے گئے پیسے کا بڑا حصہ امریکہ اور برطانیہ کے بینکوں میں موجود ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہبرطانوی معیشت سے جڑے بے شمار لوگوں کا اس پر یقین ہے کہ اگر لوٹی گئی رقوم کی برآمدگی اور اسے حقداروں تک لوٹانے سے متعلق موثر قانون سازی کر دی جاتی ہے تو یہ برطانیہ کی معیشت کیلئے نقصان دہ عمل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ یا برطانیہ نے تاحال اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قانون سازی نہیں کی ہے۔ ذرائع کے مطابق مغربی اقوام، غریب اور ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کی وبا کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ تاکہ ان ممالک کے ناجائز پیسے سے اپنے خزانے کو بھرا جا سکے۔ بالخصوص برطانیہ کی معیشت کا بڑا انحصار اس پیسے پر ہے، جو روس، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چند افریقی ممالک سے لوٹ کر وہاں پہنچایا گیا۔ ذرائع کے مطابق مغربی ممالک کس طرح غریب ملکوں کی لوٹی دولت پر قبضہ کرتے ہیں، اس کی تازہ مثال اس سلسلے میں نائجیریا کے ساتھ برطانیہ کا رویہ ہے۔
نائجیریا کے سابق فوجی حکمراں جنرل ثانی اباچا نے 1993ء میں نائجیریا کا اقتدار سنبھالا تھا۔ 1998ء میں اباچا کی موت واقع ہوگئی۔ اپنے پانچ سالہ دور کے دوران ثانی اباچا اور اس کے ساتھیوں نے دل کھول کر سرکاری خزانہ لوٹا۔ اس کے بعد گڈلک جوناتھن نے صدارت کا منصب سنبھالا۔ تاہم وہ اپنے پانچ سالہ دور میں کرپشن کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ کر سکے۔ 2015ء میں صدر بننے والے محمد بوہاری نے کرپشن کے خلاف بڑے ایکشن کا اعلان کیا، اور سابق آمر ثانی اباچا کے دور میں بیرون ملک بھیجا جانے والا ناجائز پیسہ بھی واپس لانے کا عزم ظاہر کیا۔ نائجیرین تفتیش کاروں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ ثانی اباچا کے پانچ سالہ دور میں دس ارب ڈالر کی کرپشن ہوئی۔ اس میں سے چار ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کئے گئے۔ سب سے زیادہ ناجائز پیسہ برطانوی بینکوں میں بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں کا نمبر آتا ہے۔ اس کی تصدیق فنانشنل ٹائمز لندن نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کی۔ جس میں کہا گیا کہ نائجیرین آمر ثانی اباچا کی جانب سے بیرون ملک چار ارب ڈالر سے زائد رقم کی منی لانڈرنگ میں لندن کے بینکوں نے اہم کردار ادا کیا۔ منی ٹریل سے معلوم ہوا کہ یہ ناجائز رقم لندن کے پندرہ بینکوں میں منتقل ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام نے اس ’’منافع بخش‘‘ منی لانڈرنگ میں ملوث ان بینکوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ نہ یہ لوٹی گئی رقم نائجیریا کو واپس کرنے کے لئے کسی قسم کی سرگرمی دکھائی گئی، کیونکہ برطانیہ اس خطیر رقم کو واپس بھیج کر اپنی معیشت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
نائجیریا کو لوٹی گئی رقم واپس کرنے سے متعلق برطانوی حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ پچھلے تین برس سے چل رہا ہے۔ لیکن تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اس رقم کی واپسی کے لئے رواں برس جون میں نائجیریا کے اٹارنی جنرل نے لندن میں برطانوی اور امریکی حکام کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط بھی کئے۔ جس میں ابتدائی طور پر پانچ سو ملین ڈالر کی واپسی کا طریقہ کار طے کیا جانا تھا۔ تاہم قریباً ایک ماہ پہلے برطانوی کوئن کونسل فلپ ہیکٹ نے یہ انکشاف کرکے نائجیرین حکومت پر بم گرا دیا کہ برطانیہ فی الحال یہ پیسہ واپس کرنے کا اردہ نہیں رکھتا، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ لوٹی گئی رقم واپس ملنے پر نائجیرین حکومت اس کا درست استعمال نہیں کرے گی۔ اس نئے برطانوی موقف پر نائجیریا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نائجیریا میں انسانی حقوق کی سب سے طاقتور مسلم تنظیم نے برطانوی رویے کو غیر منصفانہ اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم تنظیم کا کہنا ہے کہ برطانیہ، نائجیرین پیسے پر قبضے کا حق نہیں رکھتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ’’یہ رقم کس کی ملکیت ہے؟‘‘۔ جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سارا پیسہ نائجیریا کی وفاقی حکومت کا ہے تو پھر اسے واپس کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ برطانیہ اس رقم کو دبانے کے لئے کہہ رہا ہے کہ نائجیریا کو اپنے نظام میں شفافیت لانی ہو گی۔ حالانکہ اس وقت نائجیریا میں ایک صاف ستھرا اور قابل اعتماد لیڈر موجود ہے۔ مسلم تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ دراصل برطانیہ کا اپنا ایجنڈا ہے۔ وہ نائجیریا کی لوٹی گئی رقم سے اپنی معیشت کو فائدہ پہنچا رہا ہے، اور اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ برطانوی رویے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کیپٹل ازم کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ اور یہ کہ کیپٹلسٹ اخلاقیات سے عاری ہیں۔ ان کے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ رقم کہاں سے آ رہی ہے؟ چاہے یہ رقم دنیا بھر کے مظلوم ممالک کے لاکھوں غریب لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر حاصل کی جائے۔ نائجیرین مسلم تنظیم نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ مختلف ممالک کے ایسے کتنے کرپٹ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی رقم کمیونسٹ اور اسلامی ریاستوں میں رکھی ہے؟ نائجیریا کی کتنی رقم روس یا چین میں ہے؟ کتنے لٹیروں نے اپنی رقوم سعودی عرب یا ایران میں منتقل کیں؟ دراصل یہ کیپٹل ازم کے حامی ممالک ہیں، جو مختلف غریب ممالک کے کرپٹ لوگوں کو پیسہ لوٹنے پر خود اکساتے ہیں اور پھر اس رقم سے اپنے خزانے بھرتے ہیں۔ نائجیریا کے بارے میں برطانیہ کی وہی استعماریت پر مبنی سوچ ہے، جس کے تحت اس نے ایک سو برس سے زائد عرصے تک نائجیرین عوام کو اپنا غلام بناکر اس کا استحصال کیا۔ مسلم تنظیم نے اپنے بیان میں ایک قدیم افریقی کہاوت کا حوالہ بھی دیا کہ ’’جو شخص چھت پر چڑھ کر پام آئل چوری کرتا ہے، صرف وہی چور نہیں، بلکہ اس چور کو چھت پر چڑھانے والے بھی چور ہیں، کیونکہ ان کی مدد کے بغیر وہ چھت پر چڑھ کر چوری نہیں کر سکتا‘‘۔ اسی طرح برطانیہ اور اس جیسے دیگر ممالک، جنہوں نے نائجیریا اور دیگر غریب ممالک سے لوٹی گئی رقوم کو اپنے پاس رکھا، وہ بھی رقم لوٹنے والوں کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
نائجیریا سے لوٹی گئی دولت کا ایک بڑا حصہ امریکی بینکوں میں بھی موجود ہے۔ چند ماہ پہلے نائجیرین صدر محمد بوہاری نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہائوس میں ملاقات کے موقع پر پانچ سو ملین ڈالر کی واپسی کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔ لیکن امریکہ کی طرف سے بھی نائجیرین پیسہ واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب لوٹی گئی رقم واپس لانے کا اعلان کرنے والے صدر بوہاری کا اقتدار ختم ہونے میں صرف دو برس باقی ہیں۔ اب تک سوئٹزر لینڈ ایسا ملک ہے، جس نے لوٹی ہوئی رقم نائجیریا کو واپس کی۔ لیکن یہ بھی اس وقت ممکن ہو سکا جب ثانی اباچا کے بیٹے ابا اباچا کے خلاف کرمنل مقدمہ چلایا گیا اور پھر ثانی اباچا کے بیٹے کی رضامندی سے سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھے گئے ایک ارب دو کروڑ ڈالر نائجیریا کو واپس ملے۔ اس رقم کی پہلی قسط سات سو ملین ڈالر بہت پہلے نائجیریا کو مل گئے تھے۔ جبکہ رواں برس جولائی میں مزید تین سو بائیس ملین ڈالر نائجیریا کو واپس لوٹا دیئے گئے۔ یہ رقم کنڈیشنل کیش ٹرانسفرز کے ذریعے نائجیریا کی 19 ریاستوں میں تین لاکھ دو ہزار غربا میں تقسیم کی گئی۔ ٭