فضل ئل درود شریف

صاحب احیاء العلوم (امام غزالیؒ) نے لکھا ہے کہ حضور اقدسؐ کے وصال کے بعد حضرت عمر ؓ رو رہے تھے اور یوں کہہ رہے تھے کہ حضور! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، ایک کھجور کا تنا جس پر سہارا لگا کر آپؐ منبر بننے سے پہلے خطبہ پڑھا کرتے تھے، پھر جب منبر بن گیا اور آپؐ اس پر تشریف لے گئے تو وہ کھجور کا تنا آپؐ کے فراق میں رونے لگا، یہاں تک کہ آپؐ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا، جس سے اس کو سکون ہوا (یہ حدیث کا مشہور قصہ ہے) حضور! آپ کی امت آپ کے فراق سے رونے کی زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس تنے کے (یعنی امت اپنے سکون کے لئے توجہ کی زیادہ محتاج ہے) حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کا عالی مرتبہ خدا کے نزدیک اس قدر اونچا ہوا کہ اس نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، چنانچہ ارشاد فرمایا ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، اس نے خدا کی اطاعت کی‘‘۔
حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی فضیلت خدا کے نزدیک اتنی اونچی ہوئی کہ آپ سے مطالبہ سے پہلے معافی کی اطلاع فرما دی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’خدا تعالیٰ تمہیں معاف کرے تم نے ان منافقوں کو جانے کی اجازت دی ہی کیوں‘‘۔ حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کا علو شان خدا کے نزدیک ایسا ہے کہ آپ اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ، لیکن انبیاء کی میثاق میں آپ کو سب سے پہلے ذکر کیا گیا، چنانچہ ارشاد ہے، وَاِذْ اَخَذنَا … تا … نُوْحِ وَابْرَاھیم( الآیۃ) حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی فضیلت کا خدا کے یہاں یہ حال ہے کہ کافر جہنم میں پڑے ہوئے اس کی تمنا کریں گے کہ کاش آپ کی اطاعت کرتے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment