ماہ صفر چار ہجری میں بیئر معونہ کا واقعہ پیش آیا، اس کا قصہ اس طرح ہے کہ عامر بن مالک جس کی کنیت ابوبراء تھی، آنحضرتؐ کے پاس آیا اور ہدیہ پیش کیا، آنحضرتؐ نے اس کا ہدیہ قبول نہیں کیا اور اس کو اسلام کی دعوت دیدی، اس نے قبولیت اسلام پر خاموشی اختیار کی اور آنحضرتؐ کچھ قرا مانگ لئے تاکہ وہ اہل نجد کو دعوت دیں، ممکن ہے وہ مسلمان ہو جائیں، آنحضرتؐ نے خدشہ ظاہر کیا کہ نجد والے میرے صحابہؓ کو قتل کردیں گے۔ ابوبراء نے کہا کہ میں ان کی حمایت و حفاظت کی ضمانت لیتا ہوں، آنحضرتؐ نے ستر صحابہ روانہ کئے، جو قراء کے نام سے مشہور اصحاب صفہ میں سے تھے، قطعہ منتظرہ کے طور پر رہتے تھے، یعنی ضرورت پڑنے پر جہاد کے محاذ پر جا کر لڑتے تھے، یہ پاکباز جماعت کے لوگ تھے، دن کو لکڑی لاکر فروخت کرتے تھے اور صفہ کے طلبہ کے کھانے کا انتظام کرتے تھے، جب یہ حضرات، ابوبراء کے ساتھ بیئر معونہ کے مقام پر پہنچ گئے تو وہاں ایک شیطان صفت آدمی عامر بن طفیل نے بنی سلیم اور دیگر قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ سے مدد مانگی اور سب نے مل کر ان ستر نہتے صحابہ کرامؓ کو شہید کر ڈالا، صرف ایک صحابی زخمی ہو کر بچ گئے اور مدینہ طیبہ واپس آگئے۔ رسول اکرمؐ کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپؐ بہت زیادہ غمگین ہوئے اور وفات تک آپؐ کو یہ درد رہا، چنانچہ حضرت انسؓ نے آنحضرتؐ کے غم اور درد کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے نبی کریمؐ کو بیئر معونہ کے شہداء پر جنتا غمگین دیکھا، کسی معاملے میں نہیں دیکھا۔‘‘
چنانچہ رسول اکرمؐ نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں ان قبائل کا نام لے کر بددعا فرمائی، جس کو قنوت نازلہ کہتے ہیں، پھر حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو بددعا سے منع کر دیا۔(تحفۃ المنعم، شرح صحیح مسلم، از مولانا فضل محمد یوسفزئی)
چار کے مقابلے میں چار
قیامت کے روز حق تعالیٰ چار مقدس ہستیوں کو چار قسم کے لوگوں پر حجت قائم کرنے کیلئے پیش فرمائے گا۔
(1) مالدار کے مقابلے میں حضرت سلیمانؑ کو پیش کیا جائے گا، جب کوئی مالدار عذر پیش کرے گا کہ دنیا میں کاروباری مشاغل نے تیری عبادت کا موقع ہی نہ دیا تو کہا جائے گا کہ تو جھوٹا ہے۔ سلیمانؑ تجھ سے زیادہ مالدار تھے، مگر ان کی دولت اور حکومت کی ذمہ داریوں نے انہیں عبادت سے نہیں روکا۔
(2) غلاموں کے مقابلے میں حضرت یوسفؑ کو لایا جائے گا، غلام کہے گا: اے پروردگار! دنیا میں تو نے مجھے جس کا غلام بنایا تھا، اس کی غلامی نے مجھے تیری عبادت نہ کرنے دی، اس سے کہا جائے گا تو غلط کہتا ہے، اگر غلامی مانع ہوتی تو حضرت یوسفؑ بھی مصر میں غلام تھے، ان کی غلامی کیوں مانع نہ بنی۔
(3) غریبوں کے مقابلے میں حضرت عیسیٰؑ پیش کئے جائیں گے۔ غریب کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عبادت کہاں سے کرتا تو نے مجھے غریب بنایا، اس غربت نے مجھے نہ دنیا کا رکھا نہ آخرت کا، اس سے کہا جائے گا تیرا عذر غلط ہے۔ کیا تو ہمارے بندے حضرت عیسیٰؑ سے بھی زیادہ غریب تھا، انہوں نے غربت میں کیسے عبادت کی؟
(4) مریضوں کے مقابلے میں حضرت ایوبؑ کو پیش کیا جائے گا، مریض کہے گا: اے پروردگار! آپ نے مجھے بیمار رکھا اور اتنے اتنے امراض میں مبتلا رکھا، اس لئے میں تیری عبادت نہ کر سکا۔
اس سے کہا جائے گا تم جھوٹے ہو، ذرا حضرت ایوبؑ کو دیکھو، کیا تمہارے امراض ان سے بھی زیادہ سخت اور تکلیف دہ تھے، وہ تو انتہائی تکلیفوں میں میری عبادت کرتے رہے، تمہارے لئے بھی کچھ مشکل نہ تھا، اگر عبادت کرنا چاہتے، اس کے بعد سب خاموش ہو جائیں گے۔
ان لوگوں کیلئے اس میں کتنی عبرت آمیز نصیحت ہے، جو ذرا ذرا سے بہانے پر فرائض چھوڑ دیتے ہیں۔ (روضۃ الصالحین صفحہ نمبر 90 ج 2)