آخری حصہ
ضیا ءالرحمن چترالی
اسلامک سینٹر کے میزبانوں کی جانب سے کتابچوں کا جو گفٹ دیا گیا تھا، ان کتابچوں میں خاص طور پر اسلام میں عورتوں کے حقوق اور نبی رحمتؐ کی ازواج مطہراتؓ کے بارے میں نظریات، تفکرات اور اعمال پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی، میں ان کتابچوں کا گھنٹوں مطالعہ کرتی رہی اور یہ مطالعہ ہر بار نور اور ہدایت کا ایک نیا باب روشن کرتا رہا۔
کتابوں کے مطالعے کے بعد میں نے سوچا جو چیز دل میں بھی آگئی ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر کیسی؟ یہ سوچ کر میں اسلامی مرکز پہنچی اور انتظامیہ سے اسلام قبول کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا، میرا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے کی کارروائی میں کچھ وقت لگے گا، مگر اسلامی مرکز والوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے میں کسی خاص کارروائی کی ضرورت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ جو باتیں اور عقائد دل سے آپ نے مان لی ہیں، یہی زبان سے دہرالو، میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے مجھے کلمہ شہادت اور اس کا ترجمہ زبان سے کہلوایا۔ خدا کا شکر کہ اب میں مسلمان ہوں۔ مجھے اپنے اندر بھی اسی سکون کا احساس ہے، جو میں نے مصر میں عبادت کرتے ہوئے لوگوں کے چہروں پر دیکھا تھا۔ خدا کا شکر کہ اب میں بھی اسلامی مرکز کی اہم ممبر ہوں۔
میرا وہ دوست جس کے ساتھ میں نے کافی وقت گزارا اور میں اس کو پسند بھی کرتی تھی، میں نے سوچا اسے بھی دین اسلام کی دعوت دوں اور اسلام کی خوبیاں اس کے سامنے بھی پیش کروں، میں اس سے ملنے اسی فلیٹ پر پہنچی، جہاں میں نے اندھیرے کی دنیا کے برسوں گزارے تھے، میں نے اسے اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتایا اور اسلام کے بارے میں اسے موٹی موٹی باتیں بتائیں، اس نے مجھے ٹالنے کے لیے کہا یہ مذہب بڑھاپے کے لیے بڑا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لیے 30 سال بعد اس کے بارے میں سوچیں گے، لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور جب بھی میں اس سے ملتی، اسلام کی اچھائیاں اسے بتاتی اور بڑی مشکل سے میں نے اسے اسلامی مرکز چلنے کے لیے راضی کیا۔
مرکز والوں کی تبلیغ اسلام سے وہ بہت متاثر ہوا، اس نے کہا کہ یہاں آکر مجھے پتہ چلا کہ رسول اکرمؐ پوری انسانیت کی فلاح کی بات کرتے تھے، جب کہ اب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ اسلام قتل و غارت گری کی ترغیب دینے والا مذہب ہے اور اگر میں نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں کی طرف سے چند عیسائیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا، یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔
کچھ دن بعد میرے دوست نے بھی اسلام قبول کر لیا، مرکز کے لوگوں نے اس کا نام عبد اللہ رکھا، وہ میرے ساتھ پابندی سے دینی تعلیم کے لیے مرکز چلنے لگا، مرکز کے ایک ساتھی نے ہم سے کہا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو، شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم دونوں بخوشی اس کے لیے راضی ہو گئے اور مرکز کے ہی ایک بزرگ نے ہمارا نکاح پڑھایا اور اس طرح میں مارشیلا انجلو سے فاطمہ عبد اللہ ہوگئی۔
اب ہم دونوں اسلامی مرکز کے مبصر ہیں اور اٹالین معاشرے میں دین اسلام کے بارے میں پھیلی غلط فہمیاں دور کرنے اور دین اسلام کی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔