حصہ اوّل
اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد قائم کرنے کا سہرا سیدنا معاویہؓ کے سر ہے۔ ان کی فطرت عالمگیر تھی۔ ان کی عالی ہمت کا تقاضا یہ تھا کہ ایشیا سے نکل کر یورپ اور افریقہ تک اشاعت اسلام کی راہیں ہموار کی جائیں۔ آپؓ کی دور اندیشی اور فراست کا فیصلہ یہ تھا کہ اگر اسلام کو غالب کرنا اور روم کی شوکت و سطوت پارینہ کو پاؤں تلے کچلنا ہے تو اس کیلئے اسلامی بحری بیڑا کو وجود میں لانا از بس ضروری ہے۔
چنانچہ آپؓ نے عہد فاروقی ہی میں حضرت عمرؓ سے بحری بیڑے کی تیاری کی اجازت طلب کی۔ مگر حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کی خیر خواہی کے جذبہ کے پیش نظر اس کی اجازت نہ دی۔
امام طبریؒ نے بہ سند جید بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے حضرت عمرؓ سے بحری جنگ کی بہ اصرار درخواست کی اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے کہا:
’’امیر المومنین مملکت روم کی سرحد، حمص سے جو اسلامی مملکت ہے، اس قدر قریب ہے کہ حمص کی ایک بستی کے لوگ، روم کے کتوں کے بھونکنے اور ان کے مرغوں کی اذان کی آواز سنتے ہیں۔ روم کا ساحل حمص کے ساحل سے ملا ہوا ہے۔ ان حالات میں مملکت اسلام کا امن و سکون ہمیشہ خطرہ میں رہے گا۔ اس لئے اسلامی مفاد اور تحفظ مملکت کے پیش نظر رومی مقبوضات پر بحری حملہ ناگزیر ہے۔ اس کی اجازت دی جائے‘‘۔
حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے، جنہیں بحری سفر کا تجربہ تھا سمندری سفر کے حالات اور اس کی کیفیت اور منافع و مفاد معلوم کرنا چاہے۔
انہوں نے لکھا: ’’میری رائے میں ایک عظیم مخلوق (سمندر) پر ایک نہتی سی مخلوق (کشتی) اس طرح سوار ہوتی ہے کہ اوپر آسمان اور نیچے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ اس میں اس طرح سوار ہوتے ہیں جیسے ایک کیڑا لکڑی پر سوار ہوتا ہے۔ اگر لکڑی ذرا بھی پلٹ جائے تو کیڑا ڈوب جائے اور اگر خیرو سلامتی سے کنارے لگ جائے تو کیڑا حیران ہوکر رہ جائے‘‘۔
یہ جواب عمرؓ نے پڑھ کر حضرت معاویہؓ کو لکھا:
’’نہیں! اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ میں کسی مسلمان کو سمندر میں کبھی سوار نہ کروں گا‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
’’میں ایسے خطرناک سمندر پر لشکر اسلامی کو کیسے سوار کر سکتا ہوں۔ بخدا! مجھے ایک مسلمان کی جان رومیوں کی ساری دولت سے زیادہ محبوب ہے۔ آئندہ مجھ سے اس قسم کی درخواست نہ کرنا۔ میں پہلے بھی تم کو لکھ چکا ہوں‘‘۔
اس جواب سے خلیفہ اسلام کی اپنی رعیت سے جس محبت کا اظہار ہورہا ہے، محتاج تشریح نہیں۔ اسی لئے وہ رعایا کے محبوب تھے۔
دوسری طرف حضرت معاویہؓ کا بلند ترین نظریہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ آپؓ کے نزدیک کفر کی شکست و موت اور اسلام کی بقا و ترقی کے لئے بحری جہاد ناگزیر تھا۔ لہٰذا بار بار یہ اصرار و تکرار اور حضرت عمرؓ سے بحری غزوات کی اجازت طلب کرتے ہیں اور یہ کہ جب کفار کو بحری سفر سے ڈر نہیں لگتا اور رومیوں نے بہت بڑا جنگی بیڑا تیار کرلیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس سے مرعوب ہوکر ان کے مقابلہ کے لئے بحری بیڑا تیار نہ کریں اور کافروں کو سمندر پار تک اپنی تجارت اور اپنے باطل مذہب کے پھیلانے کی اجازت دے دیں۔ (جاری ہے)