سرفروش

قسط نمبر 132
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
سچن بھنڈاری نے مجھے بلا چوں چرا کموڈور نیل کنٹھ کے گھر کا محل وقوع سمجھا دیا۔ اس کے بعد میں نے نیا سوال پھینکا۔ ’’اب شرافت سے یہ بھی بتادو کہ اس کا دفتر کہاں ہے؟ میرا مطلب ہے کیا تمہیں اپنے دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ کر اس کے دفتر جانا پڑے گا؟‘‘۔
اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’بالاڈ گودی پر اسپیشل نیول فیسیلیٹی کے نام سے ایک نئی بلڈنگ بن رہی ہے۔ اس کے گراؤنڈ فلور کا ایک پورشن کموڈور نیل کنٹھ کے دفتر کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ پرنتو اگر تم اس اور (طرف) گئے تو پکڑے جاؤ گے۔ وہ ٹوٹل پروہیبیٹڈ (مکمل ممنوعہ) ایریا ہے۔ سول گاڑیوں کو اس طرف جانے کی آگیا نہیں ہے‘‘۔
میں نے اسے یقین دلایا کہ میں محض اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے یہ سب پوچھ رہا ہوں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسے میرے جواب پر کتنا اعتبار آیا، کیونکہ میرے رخصت ہونے تک اس کی پیشانی پر تشویش کی لکیریں موجود تھیں۔
اگلے روز اسلم صبح سویرے میرے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ میں نے اسے اطمینان دلایا کہ سچن والا معاملہ قابو میں ہے۔ اس نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن افتخار صاحب نے گربچن سنگھ سے تمہیں ملوانے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اسے تمہاری اصلیت کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔ لہٰذا احتیاط کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیئے گا‘‘۔
میں نے اسے اطمینان دلایا کہ میں ہر ممکن خیال رکھوں گا۔ اس پر اس نے مجھے سچن سے حاصل کردہ کیمرے سمیت رات آٹھ بجے کے قریب دادر کے ٹیکسی اسٹینڈ کا چکر لگانے کی ہدایت کی۔ اسے رخصت کرکے میں نے ٹیکسی نکالی اور سیدھا سچن کے گھر کی طرف چل دیا۔ تاہم میں نے اس کے گھر سے پچاس گز دور ہی ٹیکسی روک دی اور انجن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ سچن اپنے معمول کے وقت پر گھر سے نکلا اور میں کافی فاصلہ رکھ کر اس کا تعاقب کرتا رہا۔ وہ سیدھا اپنے دفتر پہنچا۔ میں اسے گاڑی اندر لے جاتے دیکھتا رہا اور پھر اپنی گاڑی تقریباً دو فرلانگ آگے سڑک سے ہٹاکر ترچھی کھڑی کر دی اور بونٹ اٹھاکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری نظریں سچن کے دفتر کی طرف جمی ہوئی تھیں۔
مجھے لگ بھگ ایک گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر سچن کی گاڑی اپنی طرف آتی دکھائی دی۔ میں نے اسے پاس سے گزرنے دیا اور پھر بونٹ گراکر کافی فاصلے سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔ وہ کولابا کی کچی آبادی کے سامنے سے گزر کر سیدھا آگے بڑھتا چلا گیا۔ پھر ریگل سنیما والے چوراہے سے فرلانگ بھر آگے جانے کے بعد اس نے دائیں طرف جانے والے ایک چھوٹے روڈ پر گاڑی موڑ لی۔ میں جانتا تھا کہ وہ راستہ ساحل کی طرف جاتا ہے، اور ممکنہ طور پر نیوی کی نئی تعمیرات وہیں ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ میں سچن کی گاڑی کا پیچھا کرنے کے بجائے سیدھا نکلتا چلا گیا۔
میں نے خود کو اطمینان دلانا چاہا کہ اب فکر کی کوئی بات نہیں، سچن کموڈور نیل کنٹھ کے دفتر ہی گیا ہے اور وہ یقیناً پوری احتیاط اور تن دہی سے میری ہدایات پر عمل کر کے تمام فوٹو گرافی کرے گا اور شام ہوتے ہی کیمرا اور فلم میرے ہاتھوں میں ہوگی۔ جسے اسلم کے حوالے کر کے میں اس مشن سے بری الذمہ ہوجاؤں گا۔ لیکن کوشش کے باوجود میں اندیشوں سے جان نہ چھڑا سکا۔
بے شک سچن نے میرے ڈرانے دھمکانے پر یہ آخری کام کرنے کی ہامی بھرلی تھی، تاہم مجھے اس کی ہچکچاہٹ بھی یاد تھی۔ بلکہ اس نے کموڈور نیل کنٹھ کے دفتر میں جانے سے بچنے کے لیے میری طرف سے پول کھولے جانے کے سنگین نتائج بھی نظر انداز کردیئے تھے۔ اس کی طرف سے دھوکا دینے کی ناکام کوشش سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اسے وہاںکوئی مشکوک کارروائی کرنے پر اپنی گردن پھنسنے کا شدید خطرہ ہے۔
مجھے اس سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ لیکن اس کی گردن پھنسنے کے نتیجے میں نہ صرف میرے مشن کا آخری اور اہم مرحلہ ادھورا رہ جاتا، بلکہ اس کے زبان کھولنے پر میری ساری سرگرمیوں کا راز فاش ہو سکتا تھا اور خود مجھے بھی اپنی سرگرمیاں ترک کر کے کم ازکم وقتی طور پر روپوش ہو نا پڑجاتا۔
لیکن ان تمام خطرات و خدشات کے تدارک کا میرے پاس کوئی راستہ نہ تھا، چنانچہ میں دھیان بٹانے کیلئے سواریوں کو ان کی منزلوں تک پہنچاتا رہا۔
دفتروں کی چھٹی کا وقت قریب آتے دیکھ کر میں نے ورلی سے باندرا پہنچانے کی فرمائش کرنے والے ایک نوجوان جوڑے سے انجن میں گڑبڑ کا بہانہ کرکے معذرت کی اور سیدھا سچن کے دفتر کی طرف دوڑ لگائی۔ میں نے لگ بھگ ایک فرلانگ کے فاصلے پر اپنی ٹیکسی کھڑی کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ سچن کے دفتر کی طرف نظریں جمادیں۔
بالآخر چھٹی کا وقت ختم ہوا اور میں نے سچن کی گاڑی نمودار ہوتے دیکھ کر اطمینان کی گہری سانس لی۔ اس کی گاڑی سیدھی کولابا کی طرف بڑھی اور پھر کولابا مارکیٹ میں داخل ہوکر شراب کی دکان پر جا رکی۔ میں نے اپنی ٹیکسی اس کی گاڑی کے پیچھے ہی روک دی۔ وہ لگ بھگ جھومتا ہوا گاڑی سے اترا اور دکان کی طرف بڑھا۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ واپس لوٹا تو حسب توقع اس کے ہاتھ میں جانی واکر بلیک لیبل اسکاچ وسکی کی بوتل تھی۔ وہ جیسے ہی دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا، میں اترا اور اس کے سر پر جا پہنچا۔
اس نے چونک کر سر اٹھایا اور نیم تاریکی میں آنکھیں پھاڑکر دیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’اب ایسی بھی کیا بے وفائی سچن جی کہ پہچاننے کو تیار نہیں ہو؟‘‘۔
اس نے کھسیانا سا ہوکر کہا۔ ’’نہیں جی، میں تو پہچان گیا تھا، پرنتو تم یہاں کیسے؟ میرا مطلب…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’مطلب وطلب چھوڑو سچن جی۔ یہ بتاؤ کام ہوگیا ناں؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟‘‘۔
یک لخت اس کے چہرے پر خفگی چھاگئی۔ ’’تمہارا کام تو ہوگیا پرنتو میری جان سارا دن سولی پر لٹکی رہی۔ انیک (کئی) بار بڑی کٹھنائی سے یہ شاپت (منحوس) کیمرا چھپانا پڑا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے سگریٹ کیس نکال کر میرے حوالے کر دیا۔
میں نے کیمرا حتیاط سے اندرونی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ ویل ڈن سچن۔ آج سے تم مکت ہو۔ پرارتھنا کرنا کہ اب کبھی ہمارا سامنا نہ ہو‘‘۔
اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’او کے… پرنتو وہ فوٹو گراف؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نشچنت ہو جاؤ۔ آج کے بعد ان کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔ جاؤ کھل کر جشن منائو…۔ لیکن جاتے جاتے اتنا مشورہ ضرور دوں گا کہ اپنی عیاشی میں حد سے نہ گزرو۔ اس بار تم مصیبت میں پھنسنے سے بچ گئے ہو۔ ہو سکتا ہے اگلی بار بھاگیہ تمہیں بچ نکلنے کا اوسر نہ دے‘‘۔
اس نے قدرے شرمندگی سے اپنے پہلو میں رکھی شراب کی بوتل پر نظر ڈالی اور جانے سچا یا جھوٹا، مجھ سے وعدہ کیا کہ آئندہ اعتدال سے کام لے گا۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر چھتر پتی شیواجی ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ ایک سواری کو اندھیری پہنچانے اور وہاں سے ملنے والے ایک نوجوان جوڑے کو جوہو بیچ پہنچانے کے بعد میں نے دادر کے ٹیکسی اسٹینڈ کا رخ کیا۔ آٹھ بجنے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وقت پر اسلم کے بتائے ہوئے ٹھکانے پر پہنچ جاؤں گا۔ امید ہی کر سکتا تھا کہ گربچن سنگھ وہاں موجود ہوگا یا جلد ہی پہنچ جائے گا۔ کیونکہ اسلم کی زبانی مٹھو سنگھ کا قصہ سننے کے بعد سے ہی میں اس گربچن سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment