احمد نجیب زادے
امریکا کے اناڑی ڈاکٹر بندوق اور منشیات سے زیادہ مہلک ثابت ہورہے ہیں۔ مرض کی غلط تشخیص اور ادویات کے باعث موت کے منہ میں جانے والے امریکیوں کی تعداد منشیات اور مختلف جرائم کا شکار ہونے والوں سے 500 گنا زیادہ نکلی۔ آن لائن جریدے بیری بارٹ نیوز نے ایک پورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک سروے میں بیان کیاگیا ہے کہ غیر پیشہ ورانہ رویوں اور میڈیکل پریکٹس کی غلطیوں سے ہر سال ساڑھے چار لاکھ مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن کی موت کے ذمہ دار ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹروں کی غلطیوں میں مریض کو لاحق عارضہ کی غلط تشخیص اور اس پر غلط آپریشن اور ادویات کا تجویز کیا جانا اور غلط دوائوں پر مبنی انجکشن لگانے کا معاملہ سر فہرست ہے۔ لیکن امریکا کی حکومت اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے تاحال اس سلسلہ میں اپنی پالیسی واضح نہیں کی ہے کہ ڈاکٹرز کی غلط تشخیص اور علاج روکنے کیلئے کس قسم کی کارروائی کا قانون بنایا جائے گا۔ اپنی نوعیت کی اس دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جان ہاپکنز یونیورسٹی نے گزشتہ آٹھ برس کا میڈیکل اموات کا ریکارڈ جمع کیا اور بارے میں انکشاف کیا ہے کہ اس عرصہ میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ یہ سلسلہ مزید تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اس پر نہ تو کوئی تحقیقات کی گئی ہیں اور نا ہی اس ضمن میں کسی ڈاکٹر کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین اور محققین نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی کے آٹھ سال میں ہلاک ڈھائی لاکھ افراد کی نسبت حالیہ برسوں میں ڈاکٹر کی غلطیوں کے باعث ہلاک شدگان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے برس اس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز نے بتایا ہے کہ 2015ء میں حادثاتی طور پر وقوع پذیر ہونے والی اموات کی تعداد489 رہی اور امریکا میں خود کشیوں اور دیگر اسباب سے مرنے والوں کی تعداد چھتیس ہزار رہی۔ لیکن اسی سال ڈاکٹرز کی غلط تشخیص اور علاج کے سبب ہلاک شدگان کی تعداد ڈھائی لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ اناڑی امریکی ڈاکٹرزکی غلط پریکٹس کے سبب ان اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ تحقیق میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارٹن میکارے کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کی غلط تشخیص اور علاج کے سبب ہلاکتوں کی تحقیقات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ جب ڈاکٹر مارٹن سے استفسار کیا گیا کہ آیا ان اموات کے سلسلہ میں کسی کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس منظر نامہ مں بہت سارے عوامل شامل ہیں، جن میں سے کسی ایک کیخلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی، اس حوالہ سے تحقیق کے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ ’’میڈیکل ایرر‘‘ کہلاتا ہے جس میں مریضوں کی غلط تشخیص، غیر پیشہ ورانہ اور کم تجربہ کے حامل ڈاکٹرز کی کارگزاریاں، پیرا میڈیکل اسٹاف کی نا تجربہ کاری، مریض کے علاج کی درست ججمنٹ اور دیکھ بھال سمیت کمپیوٹر بریک ڈائون، غیر دانستہ طور پر مریضوں کا ریکارڈ ایک دوسرے سے خط ملط ہوجانا اور سرجیکل آلات کی خرابی بھی شامل ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے مریضوں کی اموات کا تناسب ہر سال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی ریسرچ میں گزشتہ آٹھ برس میں اسپتالوں میں بغرض علاج لائے جانے والے تین کروڑ چون لاکھ سولہ ہزار بیس مریضوں کا ڈیٹاچیک کیا گیا جس میں شامل دو لاکھ اکیاون ہزار چار سو چون مریضوں کو غلط تشخیص اوردیگر مسائل کا سامنا تھا جن نے ان کی اموات واقع ہوگئیں۔ اس سلسلہ میں امریکی شہری کرسٹوفرجیری کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کے کینسر کے مرض کی تشخیص میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے ننھی ایملی جیری کا کینسر کا مرض مزید تیزی سے بڑھتا رہا اور بالآخر وہ موت کے منہ جا پہنچی۔ ایملی کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں علم ہوچکا ہے کہ ان کی بیٹی مرض کی تاخیری تشخیص کے نتیجہ یں ڈاکٹرز نے ان کو انجکشنوں کا ہیوی ڈوز دیا جس سے ایملی جانبر نہ ہوسکی، لیکن اس سلسلہ میں کرس مانتے ہیں کہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز بھی انسان ہیں اور کسی بھی معاملہ میں انسانی غلطیوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے، جس کے تناسب کو روکنے کیلئے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو کاوشیں کرنا ہوں گی۔ واضح رہے کہ ننھی ایملی کی وفات کے بعد ان کے والد کرس جیری نے اپنی متوفیہ صاحبزادی کی یاد میں ایک سماجی مدد کا ادارہ ایملی جیری فائونڈیشن قائم کیا جو اس وقت امریکی معاشرے میں بہترین علاج اور درست تشخیص سمیت کوالیفائیڈ فارماسسٹ، لیبارٹری اور آپریشن ٹیکنیشنز کو پیشہ وارانہ امور پر متحد کرنے کا کام کررہا ہے، جس کے بارے میں کرس کا استدلال ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ غلط تشخیص کے سبب کسی اورکی بیٹی کی جان چلی جائے۔