قسط نمبر 3
سجاد عباسی
ہماری اگلی منزل اولڈ ارباط اسٹریٹ کے کونے پر واقع ایک ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں پاکستانی کمیونٹی کے کوئی دو درجن کے قریب معززین، وفد کے منتظر تھے۔ ہم گپ شپ کرتے ٹہلتے ہوئے چل پڑے ۔ ہم نے نوٹ کیا کہ وہاں پیدل چلنا لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ دفتر جانے، میٹرو ٹرین پکڑنے یا کسی ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے کیلئے دو چار کلو میٹر کی واک ہنستے کھیلتے کرلی جاتی ہے۔ جو ہم جیسوں کیلئے کسی مشقت سے کم نہیں اور پھر ہمارے ہاں سڑک کنارے واک کا تو تصور ہی ممکن نہیں کہ تجاوزات کے بعد جو جگہ بچ رہتی ہے وہاں موٹر سائیکل سوار راہ گیروں کے درمیان سے نکلنے کے کرتب دکھاتے ہیں۔ دھوئیں اور آلودگی کے مسائل اپنی جگہ، اوپر سے چھینا جھپٹی کا خوف بھی پھن پھیلائے راہ میں کھڑا ہوتا ہے۔ مگر وہاں قانون کی عملداری کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فٹ پاتھ کشادہ اور ماحول شفاف۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگ، خواتین اور بچے بھی کسی بھی وقت کہیں بھی بے فکری سے جاسکتے ہیں۔ خیر یہ معاملہ تو تمام ترقی یافتہ ممالک کا ہے جن میں ہمارے برادر عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ قانون کا احترام دیکھ کر جہاں دوسرے لوگوں پر رشک آتا ہے، وہاں بطور پاکستانی اپنے وطن کا سوچ کر دل دُکھتا ہے ۔جہاں قانون خود موجود ہو، وہاں اس کے محافظوں کی فوج نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتہ قیام کے دوران ہم پولیس اہلکاروں کو ’’باوردی درست‘‘ حالت میں دیکھنے کو ترس گئے۔ البتہ ٹریفک پولیس کی گاڑیاں وقفے وقفے سے رواں دواں دکھائی دیتی رہیں مگر وہ بھی صرف گاڑیاں۔ سگنلز پر شور مچاتے، وسل بجاتے یا چالان کاٹتے ٹریفک اہلکار کہیں دکھائی نہیں دئیے۔ اس کی ضرورت اس لئے نہیں پڑتی کہ سب کچھ اپنی اپنی جگہ درستی و ذمہ داری ہورہا ہے۔ یہاں پیدل چلنے والے کار سواروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ہر سگنل پر ہر چند منٹ بعد بڑی تعداد میں راہگیر جمع ہو کر ایک منظم جلوس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کیلئے سبز بتی آن ہوتی ہے اور منظم جلوس زیبرا کراسنگ پر چل پڑتا ہے۔ راہ گیروں کی سبز بتی کے سرخ ہونے تک تیز رفتار کاریں یوں ساکت رہتی ہیں جیسے چلتے چلتے کسی نے روح نکال لی ہو۔ گویا کار سوار پیدل چلنے والوں کو پروٹوکول دے رہے ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ہم نے سگنل کا خیال کئے بغیر ’’عادتاً‘‘ سڑک پار کرنے کی کوشش کی تو، تب بھی چلتی گاڑیاں رک گئیں۔ خدا لگتی کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر وطن عزیز کی یاد اور زیادہ تڑپاتی ہے جہاں راہ گیروں کو سڑک پار کرتے دیکھ کر کار سوار ایکسیلریٹر پر دباؤ بڑھا دیتے ہیں۔ ماسکو کی سڑکوں پر اوور ہیڈ برج بھی موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا 70 سالہ تجربہ رکھنے والے سنیاسی باواؤں اور استخارے والی باجیوں کے اشتہارات کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
ہمیں اولڈ ارباط اسٹریٹ پر تاج محل ریسٹورنٹ پہنچنا تھا۔ ماسکو کے مہنگے ترین علاقے میں دو منزلہ خوبصورت ریسٹورنٹ ایک پاکستانی بزنس مین کا ہے، یہ جان کر ہمارا سر فخر سے بلندہوگیا۔ ریسٹورنٹ کے در و دیوار آرائش و زیبائش اور فرنیچر سمیت ہر چیز پر پاکستانیت کی چھاپ واضح تھی۔ جبکہ پاکستانی کھانوں کی مانوس خوشبو فرحت بخش احساس کو دوچند کررہی تھی۔ کمیونٹی نے وفد کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کررکھا تھا جو اس لحاظ سے پر تکلّف تھا کہ روس جیسے ملک میں جہاں کھانے پینے کی ہر چیز میں وہ بدبخت جانور کسی نہ کسی بہانے سے در آتا ہے، (جس کا بال ہمارے یہاں کسی کی آنکھ میں آجائے تو وہ انسان کو انسان نہیں گردانتا) یہاں اس کی باقیات تو کیا، اس کی ہجّے تک کا گزر نہ تھا۔ سو ہمارے لئے اس سے بڑی عیاشی اور کیا ہوسکتی تھی کہ دیار غیر میں ایک ہم وطن کے ہوٹل میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دیسی اور حلال کھانا نصیب ہو۔ لہٰذا پچھلے 24 گھنٹے کی کسر نکالنے میں ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس دوران ماسکو میں مقیم پاکستانی بھائیوں سے خوب گپ شپ بھی ہوئی۔ ان میں سے زیادہ تر کاروبار سے منسلک تھے جن میں اسپورٹس، فوڈ آئٹمز، سرجیکل انسٹرومنٹ اور ہوٹل انڈسٹری قابل ذکر ہے۔ ہمیں بتایا گیاکہ پورے روس میں پاکستانیوں کی کل تعداد 1200 کے لگ بھگ ہے جن میں سے پانچ سے چھ سو ماسکو میں سکونت پذیر ہیں۔ یہ سب لوگ وہاں ایک خاندان کی طرح اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ماسکو کا پاکستانی سفارت خانہ ان کیلئے ایک بائنڈنگ فورس ہے۔ جہاں کا متحرک عملہ ان کے مسائل کے حل سمیت غمی و خوشی میں بھی شریک ہوتا ہے۔ مذہبی اور قومی تہواروں پر سب لوگ ایک فیملی کی طرح جمع ہوتے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے اور کمیونٹی کا دوستانہ اور برادرانہ تعلق آج کی تقریب سے بھی عیاں ہورہا تھا۔ جس میں قونصلر بلال وحید اور ان کے نائب اسرار احمد خان کے علاوہ ملٹری اتاشی بریگیڈئر عرفان بھی موجود تھے۔ جبکہ تاج محل ہوٹل کے پروپرائیٹر عدنان بٹ، پاکستانی کمیونٹی کے پریذیڈنٹ ملک شہباز، وائس پریذیڈنٹ چوہدری زاہد خورشید، ڈاکٹر عقیل عباسی، ڈاکٹر ابرار، کاشف خان، خلیل الرحمان، شاہنواز اور دیگر احباب میزبانی کررہے تھے۔ روس کو اپنا مسکن بنانے والوں میں بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی ہے جو 80ء اور 90ء کی دہائی میں تعلیم حاصل کرنے ماسکو گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ بیشتر، روسی حسیناؤں کی زلفوں کی اسیر ہوئے۔ یعنی ’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔‘‘ بعض ایسے اولوالعزم بھی ہیں جنہوں نے کوہ قاف کی پریوں کو قابو کرلیا، اور کچھ ایسے تن آساں بھی کہ خود پریوں سے تسخیر ہوئے۔ بہرحال چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، زمانہ حال کی حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ پریاں اب دو دو تین تین بچوں کی امّائیں اور ان کی اولادیں ’’پاک روس دوستی‘‘ کا چلتا پھرتا ثبوت بن چکی ہیں۔
کوہ قاف کو سسرال بنانے والے کم از کم دو پاکستانیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں سے ایک روس کے خوبصورت ترین ساحلی شہر سینٹ پیٹرز برگ کو مسکن بنا چکے ہیں۔ وہاں قیام کے دوران کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کمیونٹی کے متحرک رکن آصف صدیقی نے ہمیں وہ علاقہ بھی دکھایا جہاں قفقاز یا کوہ قاف کے لوگوں سمیت سیاہ بالوں والے دیگر وسط ایشیائی باشندے رہتے ہیں۔ ان کا شمار دنیا کی حسین ترین مخلوق میں ہوتا ہے۔ کوہ قاف یا کوہ قفقاز، بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان خطہ قفقاز کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔ یہ علاقہ چیچنیا میں شمار ہوتا ہے۔ کوہ قاف کے شمالی دامن میں واقع 15 ہزار مربع کلو میٹر اور 10 لاکھ آبادی پر مشتمل جمہوریہ چیچنیا صدیوں سے روس سے نبرد آزما رہی ہے۔ کوہ قاف کا یہ پورا علاقہ سولہویں صدی سے صفوی ایران، سلطنت عثمانیہ اور زار روس کے درمیان معرکوں کا مرکز رہا ہے۔ لیکن چیچن عوام نے آزادی کی جنگ اس وقت شروع کی جب اٹھارہویں صدی میں عیسائی جارجیا نے ماسکو سے اتحاد کیا اور چیچنیا جنوب میں جارجیا اور شمال میں روس کے گھیرے میں آگیا۔ خیر فی الوقت ہم کوہ قاف کی پہاڑوں سے اتر کر پاکستانی کمیونٹی کے استقبالیے میں واپس آتے ہیں کہ جن کی آنکھیں اپنے ہم وطنوں کیلئے فرش راہ تھیں۔ دیار غیر میں مقیم یہ پاکستانی بھی اپنے ملک کیلئے ہمیں اتنے ہی فکر مند دکھائی دیئے جس طرح دیگر ملکوں میں رہنے والے پاکستانی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بدلتے حالات میں پاک روس تعلقات کے فروغ پر بہت خوش بھی ہیں اور اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بے چین بھی۔ ان کے دل پاکستانی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ پاکستان کے مسائل کو اپنا ذاتی اور خاندانی مسئلہ تصور کرتے ہیں۔ پانی کی قلت اور ڈیمز کے معاملے پر ان کی تشویش انتہا پر تھی بلکہ اس موقع پر دو پاکستانیوں خلیل الرحمان اور ملک شہباز نے بالترتیب 5 ہزار اور ایک ہزار ڈالر ڈیمز فنڈ کیلئے عطیہ کیا۔ یہ رقم پاکستانی سفارت خانے کے حکام کے حوالے کی گئی۔ یہ پاکستانی روس کے ساتھ تجارت میں اضافے کیلئے بھی بے چین ہیں اور ان کے پاس مختلف تجاویز بھی ہیں جن پر عمل کر کے دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے جس کا موجودہ حجم صرف 50 کروڑ ڈالر ہے۔ کئی پاکستانی سیالکوٹ سے برآمد کئے جانے والے سرجیکل آئٹمز کا کاروبار کرتے ہیں، جبکہ سیالکوٹ ہی سے اسپورٹس کا سامان بھی وہاں درآمد کیا جاتا ہے مگر اس بزنس کا اسکیل بہت کم ہے جسے حکومتی سطح پر اقدامات کے ذریعے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی کینو، روس میں بہت مقبول ہے مگر اس کو یہاں پہنچتے پہنچتے 20 سے 35 دن لگ جاتے ہیں۔
ایک اہم بات ہم نے یہ نوٹ کی کہ روسی صدر پیوٹن پاکستانی کمیونٹی میں بھی کافی مقبول ہیں۔ اس حوالے سے کمیونٹی کے سرکردہ افراد کا کہنا تھا کہ امریکہ اور کئی مغربی یورپی ممالک کے برعکس یہاں رہنے والے غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کمتر درجے کے شہری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ روسیوں کے حسن اخلاق کا اندازہ تو ہمیں بھی بڑی حد تک ہوگیا تھا، مگر کسی غیر ملکی اور بالخصوص پاکستانی مسلمان کو کسی ’’کافر ملک‘‘ کی حکومت سے کوئی شکایت نہ ہو؟ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہورہی تھی۔
سو ہم نے اپنے میزبانوں میں سے ایک کا دل ٹٹولا ’’چوہدری صاحب، ماسکو میں مساجد کتنی ہیں؟ داڑھی، نماز کے حوالے سے امتیازی سلوک تو فطری سی بات ہوگی؟‘‘
چوہدری صاحب پہلے تو مسکرائے، پھر ٹھوڑی کھجاتے، عینک کے اوپر سے معنی خیز انداز میں آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بتانے لگے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ 16، 17 کروڑ آبادی کے روس میں دو کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں اور آرتھوڈوکس عیسائیت کے بعد اسلام روس کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ مگر مسلمانوں کو روسی حکام سے مذہبی حوالے سے کوئی شکایت کم ہی ہوتی ہے۔ ہاں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے شاید مساجد کی تعداد کچھ کم ہو، لیکن یہ شکایت تو یورپ کے کئی ملکوں میں اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ بلکہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ ماسکو میں جہاں 20 لاکھ مسلمان رہتے ہیں، یورپ کی سب سے بڑی مسجد موجود ہے، جس میں بیک وقت 10 ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ جمعہ کے روز تو اس کے صحن اور بیرونی احاطہ سمیت سڑک پر لگ بھگ 15 ہزار نمازی موجود ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال ماسکو کی کئی دیگر مساجد کی بھی ہے۔ یورپ کی اس سب سے بڑی مسجد کا افتتاح دو برس قبل خود صدر پیوٹن نے کیا تھا۔ افتتاحی تقریب میں ترک صدر طیب اردگان نے خصوصی دعوت پر شرکت کی تھی ۔ مسجد کی تعمیر پر 17 کروڑ امریکی ڈالر لاگت آئی تھی جو روسی علماء کی تنظیم نے مختلف متمول شخصیات اور اداروں کے تعاون سے جمع کی۔ قازقستان اور ترکی کی حکومتوں نے بھی مسجد کی تعمیر میں تعاون کیا تھا۔
پاکستانی بھائیوں کے ساتھ گپ شپ کرتے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور رات کے دو بج گئے۔ اگلی دوپہر کو ہمارے وفد کی ملاقات روسی تھنک ٹینکس سمیت کئی اہم شخصیات سے ہونا تھی، اور اس کیلئے بھرپور نیند لے کر تازہ دم ہونا ضروری تھا۔ (جاری ہے)