تیسری عالمی جنگ بحیرہ جنوبی چین سے شروع ہو سکتی ہے

عارف انجم
تھیوسیڈاڈیز ڈھائی ہزار برس قبل یونان کے ایک جنرل اور تاریخ دان گزرے ہیں۔ ان کے نام پر مبنی ایک نظریہ ’’تھیوسی ڈاڈیز ٹریپ‘‘ سیاسیات میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جب بھی دنیا میں پہلے سے موجود کسی سپر پاور کے سامنے کوئی دوسری سپرپاور ابھرنا شروع کرے گی، ان دنوں میں جنگ ضرور ہوگی۔ موجودہ دور میں امریکہ کے سامنے چین اتنی بڑی سپر پاور بن چکا ہے کہ عالمی دانشور اب ایک بار پھر تھیوسیڈاڈیز کا نظریہ سچ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ امریکی شہر سیاٹل میں تقریر کر رہے تھے، جب خود ہی انہیں ’’تھیوسی ڈاڈیز ٹریپ‘‘ کے ذکر پر آنا پڑا۔ صدر شی نے کہا کہ ’’ہم ایک دوسرے کی ترقی اور اسٹریٹجک جہت پر امریکہ سے دو طرفہ مفاہمت بڑھانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں تھیوسی ڈاڈیز ٹریپ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن بڑے ممالک اگر بار بار اسٹریٹجک معاملات میں غلطیاں کریں گے تو وہ اپنے لیے اس قسم کا ٹریپ پیدا کر لیں گے۔‘‘
چینی صدر نے ایک ہی جملے میں تھیوسی ڈاڈیز ٹریپ کے وجود سے انکار کرتے ہوئے اس کے موجود ہونے اور امریکہ و چین کے اس میں پھنسے کے امکانات کی تصدیق کردی۔ امریکہ اور چین کی حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ جنگ کے جال میں الجھتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال بس اتنا رہ گیا ہے کہ اگر ان کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس کی چنگاری کہاں سے بھڑکے گی، اس کی لپیٹ میں کون کون آئے گا اور کیا یہ عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے؟۔ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بہت واضح دکھائی دے رہا ہے۔ پہلی عالمی جنگ 1914ء میںبڑے عالمی دارالحکومتوں سے دور بلقان میں بوسنیا سے شروع ہوئی تھی۔ تیسری جنگ عظیم کا آغاز چین اور امریکہ کے مرکزی شہروں سے دور بحیرہ جنوبی چین کے انتہائی جنوبی علاقے میں چند جزائر سے ہوسکتا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین کے جنوبی علاقے میں فلپائن کے ساحل سے کچھ فاصلے پر اسپارٹلے جزائر ہیں۔ یہ 18 قدرتی جزائر کا ایک جھرمٹ ہے، جہاں پر کوئی مقامی آبادی نہیں، تاہم یہ فلپائن، ویت نام، ملائیشیا اور تائیوان کے قبضے میں ہیں۔ ان قدرتی جزائر کے درمیان اور اردگرد 100 سے زائد زیر آب سمندری چٹانیں (reefs) ہیں۔ بعض مقامات پر ان چٹانوں کے سرے یا کچھ حصے سمندر کے اوپر دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ یہ زیر آب چٹانیں پانی سے ذرا ہی نیچے ہیں، لہٰذا چین نے 2014ء میں ان چٹانوں کے اوپر ریت ڈال کر انہیں مصنوعی جزائر کی شکل دینا شروع کردی۔ اس مقصد کیلئے زیر آب مٹی کھودنے والے جہاز، ڈریجرز استعمال کیے گئے۔ چٹانوں پر بھرتی کا کام مکمل ہونے کے بعد کنکریٹ سے تعمیرات شروع کردی گئیں۔ ابتدا میں چین کا کہنا تھا کہ وہ ماہی گیروں کیلئے پناہ گاہ کا انتظام کر رہا ہے، جبکہ کچھ جزائر پر جہازوں کی رہنمائی کیلئے لائٹ ہائوس بنائے جائیں گے۔ مجموعی طور پر چین نے اس طرح کے 7 مصنوعی جزائر تعمیر کیے ہیں۔ ان میں سے 3 فیری کراس، مس چیف اور سوبی جزائر پر تین کلومیٹر طویل رن ویز جنگی جہازوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ دیگر پر کچھ لائٹ ہائوس قائم ہیں۔ جزائر کی تعمیر 2017ء میں مکمل ہوئی اور اب چین نے یہاں پر فضائی دفاع کیلئے طیارہ شکن توپیں اور میزائل بھی نصب کردیئے ہیں۔ یہ جگہ چین کے ساحل سے لگ بھگ 700 میل دور ہے، جبکہ فلپائن اور ملائیشیا کے ساحل یہاں سے 200 میل سے بھی کم فاصلے پرہیں۔ مصنوعی جزائر کی بدولت نہ صرف چین کو اپنی سرزمین سے سینکڑوں میل دور سمندر میں مستقل اڈہ مل گیا ہے بلکہ اس نے پورے کے پورے بحیرہ جنوبی چین پر اپنا دعویٰ مضبوط کرلیا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین (جسے انگریزی میں سائوتھ چائنا سی کہتے ہیں) چین سے جنوب کی طرف ایک وسیع سمندر ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں فلپائن واقع ہے۔ جنوب اور جنوب مغرب میں ملائیشیا کا ساحل ہے۔ اسی ٹکڑے میں برونائی بھی واقع ہے۔ بحیرہ جنوبی چین کے شمال مغرب میں ویت نام ہے۔ تاہم ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر پورے کے پورے سمندر پر مکمل کنٹرول کیلئے چین طویل عرصے سے سرگرم ہے۔ جبکہ امریکہ بھی اپنی طاقتور بحریہ کے ذریعے یہاں اپنی تھانیداری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کشمکش کا سبب بحیرہ جنوبی چین کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مشرق بعید میں جتنی بھی سمندری تجارت ہوتی ہے اس کا دارومدار بحیرہ جنوبی چین پر رہا ہے۔ یہاں سے ہر برس سالانہ 50 کھرب ڈالر کا سامان لیے بحری جہاز گزرتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ خود چین کا ہوتا ہے۔ اگر سمندر امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے کنٹرول میں چلا گیا تو چین کی یہ تجارت بند ہوجائے گی۔ امریکہ کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین کو کنٹرول کرنے کی کوششوں پر ہی چین نے متبادل زمینی راستوں کی تلاش شروع کی تھی جس کا نتیجہ پاکستان میں سی پیک اور دیگر ممالک میں بیلٹ و روڈ منصوبوں(بی آر آئی) کی صورت میں نکلا۔ چین اور امریکہ میں بحیرہ جنوبی چین پر قبضے کی جنگ کا سبب صرف بحری تجارت نہیں بلکہ تیل کے ذخائر بھی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق بحیرہ جنوبی چین کے نیچے 17 ارب ٹن تیل موجود ہے۔ یاد رہے کہ تیل سے مالا مال کویت کے ذخائر 13 ارب ٹن ہیں۔ امریکہ کا قانونی طور پر بحیرہ جنوبی چین پر کوئی دعویٰ نہیں، نہ ہی اس کا کوئی تعلق اس سمندر سے بنتا ہے۔ لیکن امریکہ اپنی سرگرمیوں کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں تجارتی جہازوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا حامی ہے او ر اسی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کیلئے اس کے جنگی جہاز ہر جگہ گشت کرتے رہتے ہیں۔
چین کا دعویٰ البتہ تاریخی ہے۔ صدیوں سے چینی جہاز راں اس سمندر پر تقریباً بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے چین کے ساتھ ساتھ بحیرہ جنوبی چین کے جزائر پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ جب جاپان کو شکست ہوئی تو اسپارٹلے جزائر تک چین نے دعویٰ کیا۔ 1946 میں جمہوریہ چین کی کومن تنگ حکومت نے اسپارٹلے جزائر قبضے میں لینے کیلئے اپنے جنگی جہاز بھیج دیئے۔ التبہ اسی دوران ویت نام نے بھی ان جزائر پر دعویٰ کردیا۔ چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین پر دعوے کے سلسلے میں ’’نودھاری لکیر‘‘ (Nine Dashes Line) کا اعلان کیا گیا۔ یہ سمندر کے نقشے پر لگائی گئی نو لکیریں ہیں، جو ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر تقریباً پورے بحیرہ جنوبی چین کو چینی ملکیت دکھاتی ہیں۔ چین پر کمیونسٹوں کے غلبے کے بعد 1948ء میں جب مائوزے تنگ کے ’’عوامی جمہوریہ چین‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا تو ’’جمہوریہ چین‘‘ کی کومن تنگ حکومت تائیوان فرار ہوگئی۔ جہاں اس نے چین کی اصل حکومت ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے۔ تائیون اور چین دونوں ہی بحیرہ جنوبی چین پر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر اس معاملے میں ان کا تنازع نہیں اور وہ بحیرہ جنوبی چین کو چینی عوام کی ملکیت قرار دلانے کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں۔
نو دھاری لکیر کی بنیاد پر بحیرہ جنوبی چین پر حکومت بیجنگ کے دعوے کو 2016ء میں دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے مسترد کردیا۔ عالمی عدالت میں مقدمہ فلپائن کی حکومت نے دائر کیا تھا۔ سمندر سے متعلق بین الاقوامی قانون ’’یونائیٹڈ نیشنز کنونشن آن لاء آف سی‘‘ میں درج ہے کہ کسی بھی ملک کے ساحل سے 12 ناٹیکل میل تک کا علاقہ اس کی حدود میں شمار ہوگا۔ جبکہ ساحل سے لے کر 200 ناٹیکل میل تک کے علاقے میں وہ ملک اپنا خصوصی اقتصادی زون قائم کر سکتا ہے۔ اس سے آگے کے سمندر پر اس کا کوئی دعویٰ نہیں ہوگا۔ سمندر کا عالمی قانون یہ بھی قرار دیتا ہے کہ مصنوعی جزائر اور چوکیوں کو کسی ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کی بنیاد پر ان کے گرد سمندر پر دعویٰ ہوسکتا ہے۔اس قانون کو دیکھا جائے تو چین سے 600 میل دور سپارٹلے جزائرکے ساتھ قائم منصوعی جزیروں کو چین کا حصہ مانا جا سکتا ہے نہ ہی وہاں تک سمندر کو اس کی ملکیت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم چین کا موقف ہے کہ بحیرہ جنوبی چین پر اس کا دعویٰ قدیم ہے اور صرف پینتیس چھتیس برس پہلے (1982ء میں) بننے والے لاء آف سی کے تحت فیصلے نہیں ہوسکتے۔ عالمی عدالت کی جانب سے مخالفت میں فیصلہ آنے کے باوجود چین کے دعوے کو تقویت فلپائن کے داخلی حالات سے بھی ملی ہے۔ فلپائن میں 2016ء کے بعد امریکہ نواز حکومت کی جگہ چین کی حامی قیادت آچکی ہے۔ صدر روڈریگو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین کی حمایت میں ایسی پالیسی اپنائی کہ فلپائن بحیرہ جنوبی چین پر دعوے سے دستبردار ہوتا دکھائی دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس جولائی میں منیلا میں بعض نامعلوم افراد نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کے باہر بینرز لگا دیئے جن پر تحریر تھا۔ ’’چین کے ایک صوبے فلپائن میں خوش آمدید‘‘۔
پورے کے پورے بحیرہ جنوبی چین پر حکومت بیجنگ کے دعوے کو غلط ثابت کرنے کیلئے امریکہ سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ فلپائن طویل عرصے تک امریکی قبضے میں رہا ہے۔ یہاں کے بعض سیاستدان امریکہ نواز پالیسیوں پر چلتے ہیں۔ اگرچہ فی الوقت یہاں بیجنگ نواز حکومت قائم ہے لیکن مستقبل میں یہ صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ اس سمندر سے وابستہ ایک اور اہم ملک ملائیشیا کے وزیر دفاع محمد صابو اور ان کے امریکی ہم منصب جیمز میٹس کے درمیان گزشتہ ماہ یعنی ستمبر2018ء میں واشنگٹن میں اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد جاری اعلامیے میں تحریر تھا، ’’بحیرہ جنوبی چین پر ملائیشیا اپنی غیرجانبداری برقرار رکھے گا۔‘‘ اس اعلامیے نے ملائیشیا میں طوفان کھڑا کردیا کیونکہ ملائیشیا کے سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کے مطابق نہ تو ملائیشیا اس سمندری تنازعے میں غیرجانبدار ہے اور نہ ہی غیرجانبدار رہ سکتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بظاہر ملائیشیا کو اپنے پیچھے لگانے کی کوشش کی گئی، جو ناکام ہوئی۔ ملائیشیا سمیت خطے کے ممالک چین کے ساتھ مل کر سمندری تنازعہ حل کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اور 2002ء میں ان کے درمیان ایک ضابطہ اخلاق طے پا چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین کے معاملات پر زبردستی کی دخل اندازی کو منفی تصور کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ملائیشیا بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہے، اگرچہ مہاتیر محمد نے حال ہی میں تین منصوبے منسوخ کیے ہیں۔ تنازعے کے تیسرے اہم فریق ویت نام کا معاملہ سب سے دلچسپ ہے۔ 1958ء میں جب جنوبی ویت نام پر امریکی قابض تھے اور شمالی ویت نام کے ساتھ لڑائی جاری تھی، شمالی ویت نام کے وزیراعظم نے بحیرہ جنوبی چین پر چین کے دعوے کو من و عن تسلیم کرلیا تھا۔ تاہم فام ونگڈائونگ کی جانب سے لکھے گئے خط کو قانونی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ خط شمالی ویت نام کی جانب سے اپنے سرپرست چین کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس خط سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بڑے تنازعے کی صورت میں علاقائی ممالک بڑی طاقتوں کو خوش کرنے کیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ویت نام نے بعد میں اسپارٹلے جزائر سمیت بحیرہ جنوبی چین پر اپنے دعوے کو برقرار رکھا۔ رواں برس چین اور ویت نام کے درمیان اس تنازعے پر مذاکرات آگے بڑھے ہیں۔ چین کی طرح اسپارٹلے جزائر پر ویت نام کا دعویٰ بھی تاریخی حوالے سے ہے۔ ویت نام کا کہنا ہے کہ 17 ویں صدی سے کچھ جزائر اس کے پاس تھے۔ اگر اقوام متحدہ کے سمندروں سے متعلق قوانین پر ہی عمل کیا جائے تو ویت نام کو بھی اسپارٹلے جزائر چھوڑنا پڑیں گے، کیونکہ یہ ویت نام کے ساحل سے سمندر کی دوسری جانب فلپائن کے قریب ہیں۔ لہٰذا اقوام متحدہ کے کنونشن کے معاملے پر چین اور ویت نام کا موقف یکساں ہے۔ بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے کا ایک چھوٹا فریق برونائی ہے تاہم اس کا سپارٹلے جزائر پر دعویٰ نہیں۔
مشرق بعید کے اس اہم سمندر کی ملکیت کا تنازع اگر صرف سفارتی معاملات تک محدود رہتا تو دنیا کیلئے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن امریکہ نے اسے خطرناک جنگی رخ دے دیا ہے۔ مشرق بعید میں امریکی مہم جوئی جنگی جہازوں کے گشت کی صورت میں عشروں سے جاری ہے۔ امریکہ اس نوعیت کے گشت کو فریڈم آف نیویگیشن آپریشنز (نقل و حرکت کی آزادی کیلئے کارروائیوں) کا نام دیتا ہے۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے بحیرہ جنوبی چین میں امریکی نقل و حرکت بڑھ گئی ہے۔ مئی سے اب تک 6 مرتبہ امریکی جنگی جہاز اس سمندر میں آچکے ہیں۔ ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک امریکی جنگی جہاز چین کے مصنوعی جزائر سے 12 ناٹیکل میل کے فاصلے سے گزرا۔ ستمبر میں ہی امریکہ کے بی 52 بمبار طیاروں نے بحیرہ جنوبی چین پر دو مرتبہ پروازیں کیں۔23 اور 25 ستمبر کو یہ طیارے مغربی بحرالکاہل میں گوام کے امریکی اڈے سے اڑے تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے یکم اکتوبر کو اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا کہ ان پروازوں کا مقصد چین پر دبائو بڑھانا ہے۔ وائس آف امریکہ کا کہنا تھا کہ مصنوعی جزائر پر چین کی فوجی سرگرمیوں، میزائلوں کی تنصیب، فوجی مشقوں اور ایٹمی بجلی گھر لگانے کے منصوبے کے جواب میں خطے کے ممالک خاموش ہیں۔ ویت نام سمیت بعض ممالک چین سے امداد لینے کے سبب بھی اس پر تنقید نہیں کر رہے۔ لہذا امریکی پروازوں سے ویت نام، فلپائن اور دیگر ممالک کو حوصلہ ملے گا۔ ادھے امریکی پروازوں کے جواب میں چین نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ نے بے لگام ہونے کی کوشش نہ کرے۔ امریکہ کے اتحادی برطانیہ کا ایک جنگی جہاز بھی گزشتہ ماہ چینی جزائر کے قریب سے گزرا تھا۔ حکومت بیجنگ نے برطانیہ سے بھی احتجاج کرتے ہوئے اسے اس تنازعہ سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے یہ واحد اشتعال انگیزی نہیں۔ یکم جون 2018ء کو امریکی فوج کے ڈائریکٹر جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکنزی نے دھمکی دی کہ امریکہ چین کے مصنوعی جزائر کو تباہ کر سکتا ہے۔ اس سے ایک روز قبل امریکی فوج کی انڈو پیسفک کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ہیری نے کہا کہ خطے میں چین، امریکہ کیلئے سب سے بڑا طویل المدتی چیلنج ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں بحیرہ جنوبی چین کے مصنوعی جزائر پر کشیدگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ برطانوی اخبارات تیسری جنگ عظیم کے خدشات ظاہر کرنے لگے ہیں۔ برطانوی اخبار ایکسپریس نے 28 ستمبرکو سرخی لگائی، ’’تیسری جنگ عظیم، چین کے خلاف امریکہ طاقت دکھانے لگا۔‘‘ فوجی محاذ پر اس کشیدگی کے دوران تجارتی اور سفارتی محاذوں پر بھی امریکہ میں تلخی بڑھ چکی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیرف لگانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وائس آف امریکہ کا کہنا ہے کہ جنوبی چین میں امریکی فوجی سرگرمیوں اور ٹیرف کی جنگ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تنائو کے اس ماحول میں امریکہ اور چین کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والے مذاکرات منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ ان مذاکرات کیلئے رواں ماہ یعنی اکتوبر کے وسط میں امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس نے بیجنگ جانا تھا، لیکن چین نے انہیں آنے سے روک دیا۔ مذاکرات کی منسوخی کا انکشاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے 30 ستمبر یعنی اتوار کو کیا۔
بحیرہ جنوبی چین کا تنازع جلد ہی تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہونے کے خدشات کا سبب دونوں جانب ہونے والی صف آرائی ہے اور دونوں ہی فریق زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے سرگرم ہیں۔ جاپان کا جنوبی چین کے سمندر پر کوئی دعویٰ نہیں، لیکن وہ تنازعے میں امریکہ کا حامی ہے۔ مشرقی چین کے سمندر پر جاپانی جنگی طیاروں نے امریکی بمبار طیاروں کے ساتھ پروازیں بھی کی ہیں۔ بھارت بھی امریکی کیمپ میں شامل ہے اور 2011ء میں اس کے جنگی جہاز آئی این ایس ایروات نے ویت نام کا دورہ کیا تھا، جس پر چین نے تحفظات ظاہر کیے۔ ملائیشیا کو اپنے کیمپ میں لانے کیلئے امریکہ سرگرم ہے۔ ویت نام اور فلپائن اس وقت چینی کیمپ میں شامل ہوچکے ہیں۔ خطے کے دیگر دو ممالک لائوس اور کمبوڈیا کا بحیرہ جنوبی چین سے بلواسطہ تعلق ہے کیونکہ وہ اس کے ساتھ ساحل نہ رکھنے کے باوجود قریب واقع ہیں۔ ان دونوں ممالک نے چین کے دعوے کی حمایت کی ہے۔ سنگاپور اور تھائی لینڈ تاحال غیرجانبدار ہیں۔
چار سو قبل مسیح سے پہلے تھیوسیڈاڈیز نے نئی اور پرانی فوجی طاقتوں کے درمیان لڑائی ناگزیر ہونے کا نظریہ اس وقت کے حالات کو دیکھ کر پیش کیا تھا۔ یونان میں اسپارٹا اس وقت ایک بڑی طاقت تھی، جس سے ایتھنز کی جنگ ہوئی۔ تھیوسیڈاڈیز نے لکھا تھاکہ ’’ایتھنز کے عروج نے اسپارٹا کو خوف میں مبتلا کردیا اور جنگ ناگزیر ہوگئی۔‘‘ صدیوں بعد امریکی پروفیسر گراہم ایلسن نے اس نظریہ کی روشنی میں تاریخ کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ 17ویں صدی سے 1990ء کے عشرے تک 16 مرتبہ یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ پہلے سے موجود جنگی طاقت کے مقابلے میں ایک نئی طاقت ابھری۔ ان 16 سے 12 مواقع پر نتیجہ پہلے سے موجود طاقت اور نئی طاقت کے درمیان جنگ کی صورت میں نکلا۔ صرف 4 مرتبہ جنگ نہیں ہوئی۔ تاہم ان چار میں بھی امریکہ اور سوویت یونین شامل ہیں۔ ا گرچہ امریکہ اور سوویت یونین کی کشیدگی کا نتیجہ باقاعدہ جنگ کی صورت میں تو نہیں نکلا تھا لیکن ان کے درمیان سرد جنگ نے عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ 17 واں موقع ہے کہ پہلے سے موجود طاقت امریکہ کے سامنے ایک نئی سپر پاور چین کی صورت میں سامنے آئی۔ دنیا کیلیے تھیوسیڈاڈیز ٹریپ ایک بار پھر تیار ہے۔

Comments (0)
Add Comment