بھارتی را نے الطاف سے نظریں پھیرنی شروع کردیں

امت رپورٹ
بھارتی ’’را‘‘ کے لئے الطاف حسین کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ لندن میں موجود باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کراچی کی سیاست سے الطاف حسین کو باہر کئے جانے کے بعد اب فی الحال وہ ’’را‘‘ کے کام کے نہیں رہے ہیں اور جب تک کراچی میں متحدہ سربراہ کا اثرو رسوخ دوبارہ بحال نہیں ہو جاتا۔ ’’را‘‘ کی سرد مہری برقرار رہے گی۔ جبکہ پاکستانی پالیسی ساز اب کسی صورت لندن گروپ کا چیپٹر دوبارہ کھولنے پر تیار نہیں۔ ذرائع کے بقول اس صورت حال سے دلبرداشتہ ہو کر ’’را‘‘ نے نہ صرف کراچی میں سرگرمیوں کے لئے لندن گروپ کی فنڈنگ برائے نام کر دی ہے بلکہ بیرون ملک پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے لئے الطاف اینڈ کمپنی کو دیا جانے والا پیسہ بھی روک رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ دو برس سے یہ فنڈز ایم کیو ایم لندن کے بجائے نام نہاد علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوں کو دیئے جا رہے تھے۔ اسی پیسے سے بی ایل اے نے جنیوا اور لندن میں پاکستانی ریاست کے خلاف اشتہاری مہم چلائی۔ تاہم اس کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آنے پر اب ’’را‘‘ نے ساری توجہ منظور پشتین پر مرکوز کر دی ہے۔ کیونکہ منظور پشتین نے جس طرح گمراہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ لگا لیا ہے۔ یہ بات ’’را‘‘ کے لئے باعث کشش ہے۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق بھارت نے دو ماہ پہلے ہی پشتون تحفظ موومنٹ کو جنیوا میں پاکستان مخالف بینرز لگانے پر تیار کر لیا تھا۔ تاکہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا ایشو اٹھائے جانے کو کائونٹر کیا جاسکے۔ گزشتہ ماہ کے تیسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے منطور پشتین کی تصاویر والے درجنوں پوسٹرز، بینرز اور بل بورڈ آویزاں کر دیئے گئے۔ یہ وہی پرانا مقام تھا۔ ایجنڈا بھی پرانا، لیکن چہرے بدل گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ جنیوا میں اس پروپیگنڈے کی فنڈنگ کے لئے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کو استعمال کیا گیا۔ وہاں سے رقم آگے سوئٹزر لینڈ پہنچائی گئی۔ جہاں پی ٹی ایم نے اپنے مٹھی بھر پشتون ہمدرد پیدا کر لئے ہیں۔ پی ٹی ایم کی اس ریاست مخالف اشتہاری مہم میں براہمداغ بگٹی اور مہران مری نے پوری مدد کی۔ پی ٹی ایم کے اوورسیز ورکروں کا ایڈورٹائزنگ کمپنیوں سے کنٹریکٹ کرانے سے لے کر جنیوا ایڈمنسٹریشن کونسل کا اجازت نامہ دلانے تک، تمام کام براہمداغ اور مہران مری نے کرائے۔ ذرائع کے مطابق پندرہ روزہ کنٹریکٹ میں ایک بل بورڈ کی قیمت 100 سوئس فرانک (تقریباً ساڑھے بارہ ہزار پاکستانی روپے) سے 500 (62 ہزار سے زائد پاکستانی روپے) سوئس فرانک ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ہی جنیوا میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کمیشن اجلاس کے موقع پر اس نوعیت کے بینرز اور بل بورڈز بی ایل اے نے لگائے تھے۔ جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سوئس سفیر کو طلب بھی کیا تھا۔
برطانوی اقتدار کی راہداریوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین صرف لندن تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور کافی مایوس بھی ہیں۔ کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود متحدہ سربراہ کے لئے کراچی کے دروازے نہیں کھل سکے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ برطانوی حکام الطاف حسین کے خلاف ایکشن لینا نہیں چاہتے اور انہوں نے اسے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکام بھی الطاف حسین کو چھیڑنے کے موڈ میں نہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ متحدہ سربراہ کو پاکستان لا کر ہیرو بنایا جائے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں پاکستانی حکام سے بند کمروں میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بتاتے ہوئے کہا کہ متحدہ سربراہ کو عملی سیاست سے مائنس ون کئے جانے کے بعد اب وہ الطاف حسین کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ لہٰذا ایک بند چیپٹر میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں موجود ذرائع نے اس تاثر کی نفی کی کہ ایم کیو ایم لندن، پاکستان میں الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی ختم کرانے اور نائن زیرو کھلوانے کے لئے اقوام متحدہ کے ذریعے حکومت پاکستان پر دبائو ڈلوا رہی ہے۔ ان ذرائع کے بقول اس میں ٹیکنیکل بات یہ ہے کہ اس وقت الطاف حسین کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے۔ اور انہیں پاکستانی کی بجائے برطانوی شہری ڈیکلیئر کیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک برطانوی شہری کے طور پر پاکستان میں وہ کسی ریلیف کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ تاوقتیکہ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال نہ ہو جائے۔ جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر پاکستان کے آواز اٹھانے کے جواب میں قبل ازیں بھارت نے بلتستان، بلوچستان اور کراچی میں حالات خراب ہونے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ تاہم پاکستان کی طرف سے بھرپور کائونٹر کئے جانے پر بھارت بیک فٹ پر چلا گیا۔ اب ایک بار پھر پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے کشمیریوں کے مظالم کا ذکر کر کے بھارت کو ایکسپوز کیا ہے تو وہ پی ٹی ایم کو جوابی حربے کے طور پر سامنے لا رہا ہے۔
ادھر پاکستانی سیکورٹی اداروں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب یہ ریاستی پالیسی ہے کہ بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے والے الطاف حسین کو کراچی کی سیاست میں دوبارہ سرگرم نہیں ہونے دینا۔ لہٰذا لوگ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے پالیسی اپنی جگہ موجود رہے گی۔ ریاستی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ لندن گروپ کو بیک فٹ پر کرنے میں الطاف حسین کی تقریر پر پابندی نے اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح نائن زیرو کی بندش نے لندن گروپ کی رہی سہی استعداد بھی ختم کر دی ہے۔ لہٰذا اگر تقریر پر پابندی ختم کر دی جاتی ہے اور نائن زیرو کھول دیا جاتا ہے تو پھر اتنی محنت سے کراچی میں قائم کیا جانے والا امن پھر خطرے میں پڑ جائے گا۔ ذرائع کے مطابق برطانوی ایم آئی سکس، بھارتی ’’را‘‘ کے کہنے پر الطاف حسین کو پال رہی تھی۔ اب جبکہ بھارت کی نظر میں متحدہ سربراہ غیر اہم ہوتا جا رہا ہے تو ایم آئی سکس بھی زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔

Comments (0)
Add Comment