سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

شورش کاشمیریؒ کا خواب:
شورش کاشمیریؒ مشہور شاعر، صحافی اور خطیب تھے۔ احرار سے تعلق رکھتے تھے اور چٹان کے ایڈیٹر تھے۔ علماء خصوصاً غزنوی خاندان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا دائود غزنویؒ انہیں اکثر اپنی سالانہ کانفرنسوں میں بلاتے تھے۔ موصوف نے بتایا کہ 6 دسمبر 1962ء کی صبح کو میں نے خواب دیکھا کہ مولانا دائود غزنویؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے معانقہ کر رہے ہیں، معاً آنکھ کھل گئی، موذن پکار رہا تھا: الصلاۃ خیر من النوم ’’نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘
میں خوابوں کے معاملے میں زیادہ پریشان ہونے کا عادی نہیں۔ اپنے رب سے پناہ مانگتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ خیال تھا یا ایک دھندلا سا تصور تھا کہ کونسی بجلی کسی شاخ پر گرنے والی ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے بارے میں جو کچھ میں نے پڑھا ہے، اس سے مختلف کیا ہو سکتا تھا۔ کوئی دس بجے صبح دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ماسٹر تاج الدین انصاریؒ نے یہ خبر بد سنائی کہ مولانا سید دائود غزنویؒ انتقال فرما گئے ہیں۔
مولانا کے مکان سے فون آیا تھا کہ نو بجے صبح ایکا ایکی حرکت قلب بند ہونے سے ان کا سفر حیات ختم ہوگیا ہے۔ (مولانا سید دائود غزنوی مصنف سید ابوبکر غزنوی، ص: 63)
مولانا محمد اسحاق بھٹی کا خواب:
مولانا محمد اسحاق بھٹی مورخ ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ ہفت روزہ الاعتصام کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور میں کئی سال تک اہم علمی و تحقیقی کام کرتے رہے ہیں۔
بھٹی صاحب مولانا اسماعیل سلفیؒ کے ساتھ جمعیت اہلحدیث لاہور کے دفتر میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ مولانا اسماعیل سلفیؒ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے پہلے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے تھے۔
محمد اسحاق بھٹی صاحب اپنا خواب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اب جی چاہتا ہے کہ لائق اکرام قارئین کو ایک خواب سنا دیا جائے جو بالکل صحیح ثابت ہوا۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو ہنگامے شروع ہوئے تھے وہ مسجدوں میں بھی پہنچ گئے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ میں چوک نیائیں گوجرانوالہ کی جانب سے چھوٹے دروازے سے مولانا کی مسجد میں داخل ہوا۔ صحن میں کھڑے ہوکر منبر و محراب کی طرف دیکھا تو بہت سے ملنگ قسم کے لوگ وہاں بیٹھے ہیں، جنہوں نے مختلف رنگوں کے بڑے بڑے منکوں کی تسبیحیں یا مالائیں گلوں میں ڈال رکھی ہیں۔ بازوؤں میں لوہے کے کڑے اور ہاتھوں میں بڑے بڑے چمٹے ہیں، جنہیں وہ بیٹھے ہوئے اچھل اچھل کر زور زور سے بجار رہے ہیں۔ ساتھ ہی مختلف شرکیہ نعریہ نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
میں نہایت تعجب سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مولانا اسماعیلؒ کی مسجد میں یہ کیا ہورہا ہے؟ اتنے میں بڑے دروازے کی طرف سے مولانا آئے اور میرے دائیں جانب کھڑے ہوگئے۔ وہ بھی نہایت غصے سے میری طرح سامنے منبرو محراب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد آنکھ کھلی گئی۔
دوسرے دن مولانا عطاء اللہ حنیف کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں خواب سنایا تو فرمایا: آج کل مسجدوں میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہی مولانا اسماعیل صاحب کی مسجد میں ہو رہا ہوگا۔
بعد میں گوجرانوالہ کے دوستوں کی زبانی پتہ چلا کہ ان ہنگاموں کے دنوں میں وہ لوگ خاص طور سے مولانا کی مسجد میں آتے تھے، جو ان کے مخالف مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم مولوی اسماعیل کی مسجد میں یہ سلسلہ ضرور جاری رکھیں گے۔
(نقوش عظمت رفتہ از مولانا محمد اسحاق بھٹی، ص:250.249) ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment