دو صحابہ کرامؓ کی دعائیں

امام بغویؒ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے نقل کرتے ہیںکہ غزوۂ احد کے دوران حضرت عبد اللہ بن جحشؓ نے مجھ سے کہا کہ ’’آئیے مل کر دعا کریں‘‘۔ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ ہم ایک گوشے میں چلے گئے، وہاں میں نے تو یہ دعا کی کہ: ’’پروردگار! جب کل دشمن سے ہماری جنگ شروع ہو تو میرا مقابلہ کسی ایسے شخص سے کرائیے جو بڑا طاقتور اور ہٹا کٹا ہو، میں اس سے خالص آپ کی خوشنودی کی خاطر لڑوں اور پھر آپ مجھے اس پر فتح نصیب فرمائیں‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ نے اس دعا پر آمین کہی، پھر خود ان کی دعا کی باری تھی، اب انہوں نے ان الفاظ سے دعا فرمائی ’’یا الٰہی! مجھے کل کوئی ایسا طاقتور شخص نصیب فرما، جس سے میں آپ کی خوشنودی کی خاطر لڑوں، یہاں تک کہ وہ مجھے پکڑ کر میرے ناک کان کاٹے اور پھر جب میں قیامت کے دن آپ سے ملوں تو عرض کروں کہ میرے ساتھ یہ سلوک آپ کی اور آپ کے رسولؐ کی راہ میں ہوا اور آپ جواب میں میری تصدیق فرمائیں‘‘۔ حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن جحشؓ کی دعا میری دعا سے بہتر تھی، چنانچہ اس روز جب دن ڈھلا تو میں نے دیکھا کہ ان کی ناک اور کان ایک دھاگے میں لٹکے ہوئے ہیں۔ (الاصابہ، ص278۔ ج 2)
خلیفہ کا تواضع
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو ان کے عادل ہونے کی وجہ سے ’’عمر ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک شب کو حضرت رجاء بن حیوہؒ ان کے مہمان بنے۔ دوران گفتگو چراغ
کی لو جھلملانے لگی، پاس ہی آپؓ کا خادم سویا ہوا تھا، رجاء بن حیوہؒ نے فرمایا کہ کیا خادم کو اٹھا دوں، عمر بن عبد العزیزؓ نے فرمایا:
ان کو آرام کرنے دو، رجائؒ نے دوبارہ کہا کہ میں چراغ کو درست کر دیتا ہوں، فرمایا مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے، پھر خود اٹھے اور برتن سے زیتون کا تیل لیا اور چراغ ٹھیک کرکے پھر فرمایا: میں جب اٹھا تھا، تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور اب بھی عمر بن عبد العزیز ہوں۔
مہدی کا خواب!
شریکؒ، خلیفہ مہدی کے زمانے میں قاضی تھے، ایک مرتبہ وہ مہدی کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں قتل کروانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ قاضی صاحب نے پوچھا:
’’امیر المومنین کیوں؟‘‘۔
مہدی نے کہا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم میرا بستر روند رہے ہو اور مجھ سے منہ موڑے ہوئے ہو۔ میں نے یہ خواب ایک معبر کے سامنے پیش کیا تو اس نے یہ تعبیر دی کہ قاضی شریک ظاہر میں تو آپ کی اطاعت کرتے ہیں لیکن اندر اندر آپ کے نافرمان ہیں‘‘۔
قاضی شریک نے جواب دیا ’’خدا کی قسم امیر المومنین، نہ آ پ کا خواب ابراہیم علیہ السلام کا خواب ہے اور نہ آپ کا تعبیر دینے والا یوسف علیہ السلام ہے۔ تو کیا آپ جھوٹے خوابوں کے بل پر مسلمانوں کی گردنیں اتارنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
مہدی یہ سن کر جھینپ گیا اور قتل کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ (الاعتصام ص 353 ج 1)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment