برطانوی انجینئر کا قبول اسلام

ضیاء الرحمن چترالی
مورس کا تعلق برطانیہ کے شہر نیوکاسل سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ ساری زندگی حق کی تلاش میں رہنے کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کر کے وہ مسلمان ہوئے۔ مورس کا پرانا نام ’’مورس بڈن‘‘ تھا اور قبول اسلام کے بعد اس کا پہلا نام مورس عبد المجید تھا، جسے بعد میں اس نے تبدیل کر کے مورس عبد اللہ رکھ لیا، مگر عام طور پر مورس کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ علامہ زاہد الراشدی نے اس نومسلم کے ساتھ تفصیلی گفتگو کے بعد اس کے قبول اسلام کی داستان اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہے۔
مورس کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہی اس کے مزاج میں تجسس تھا اور توہمات سے اسے نفرت تھی۔ وہ کرسمس فادر اور روحوں وغیرہ کے آنے پر یقین نہیں رکھتا تھا اور اسکول کی تعلیم کے دوران بھی کثرت سے سوالات کیا کرتا تھا۔ وہ کبھی چرچ نہیں گیا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے پر یقین رکھتا تھا۔ البتہ خدا پر اس کا یقین تھا اور اپنے طور پر خدا سے سیدھا راستہ دکھانے کی دعا کیا کرتا تھا۔ غریب لوگوں سے ہمدردی تھی اور جنگ سے سخت نفرت تھی، بلکہ یہ دعا کرتا تھا کہ اے خدا! دنیا میں جتنا اسلحہ بھی ہے، وہ سب پگھل جائے تاکہ جنگ نہ ہو اور لوگ امن کے ساتھ رہ سکیں۔
مورس عبد اللہ نے بتایا کہ مجھے بچپن سے ہی ڈراؤنے خواب آتے تھے اور میں ہر وقت سوچ بچار کرتا رہتا تھا۔ بارہ سال کی عمر میں مجھے پختہ یقین ہوگیا کہ خدا ہے، مگر بائبل پر یقین نہیں تھا اور میں مسلسل اس تلاش میں تھا کہ خدا کہاں ہے؟ میں نے ایک روز ان الفاظ میں دعا مانگی کہ اے خدا! مجھے یقین ہے کہ تو ہے، مگر تجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا، اس لیے آج کے بعد میں ہر وہ کام کروں گا، جسے میں اچھا سمجھوں گا اور ہر اس کام سے بچوں گا جسے اچھا نہیں سمجھوں گا۔ اس کے بعد میں نے بہت سے ایسے کام بھی زندگی میں کیے، جنہیں میں اچھا سمجھتا تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ اچھے کام نہیں تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں آرمی میں چلا گیا اور امریکہ، ڈنمارک، قبرص، فرانس، یونان، روڈس اور مصر وغیرہ میں فوجی خدمات سرانجام دیتا رہا۔ اس دوران بھی حقیقت کی تلاش میں میرا تجسس جاری رہا اور میں اپنے ساتھیوں سے بحث و مباحثہ کرتا رہا۔ میں نشہ بھی کرتا تھا، شراب بھی پیتا تھا اور ہر برے سے برا کام کر گزرتا تھا، حتیٰ کہ جب انتہا ہوگئی تو واپسی کا خیال پیدا ہوا۔
آرمی سے فارغ ہونے کے بعد میں بطور انجینئر مصر چلا گیا، جہاں دو سال رہا اور اس دوران مصر کے انجینئر دوستوں سے مختلف معاملات پر میرے بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا۔ زیادہ تر غیب لوگوں کے حالات زیر بحث آئے۔ میں انہیں یہ کہتا کہ دیکھو ہمارا مغرب کا ڈیموکریسی کا نظام کتنا اچھا ہے، تمہارے ہاں یہ نظام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں صفائی ہے، ڈسپلن ہے، تمہارے ہاں گندگی ہے، غربت ہے اور عام لوگوں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ہم لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں اور تمہاری حالت کیا ہے! اس دوران مصر میں مجھے بھنگ اور حقے کی بھی عادت ہوگئی اور اس قسم کے بحث مباحثوں میں بھی میرا جوش و خروش بڑھتا رہا۔ ایک مصری انجینئر جس کا نام فہمی تھا، مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ جو صورتحال تم ہمارے مسلمانوں کی دیکھ رہے ہو، یہ اسلام نہیں ہے۔ اسلام تو کتابوں میں ہے اس لیے اسلام کا مطالعہ کرو۔ اسی دوران جب میں نے اسے کہا کہ ہم لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں اور تم لوگ ابھی تک گندگی اور غربت میں ہو تو اس نے مجھے کہا کہ چاند پر جانے اور خلاء کے جس سفر کی تم بات کر رہے ہو، اس کا ذکر تو قرآن کریم نے صدیوں پہلے کر دیا تھا۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا کہ کیا تم قرآن کریم میں مجھے یہ بات دکھا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں دکھا سکتا ہوں، میں نے اس پر خاموشی اختیار کر لی اور سوچنے پر مجبور ہو گیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment