پہلا اسلامی بحری بیڑہ

حضرت فاروق اعظمؓ کی وفات کے بعد جب حضرت عثمانؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت معاویہؓ نے اپنا مطالبہ ان کے سامنے پیش کیا اور جب تک امام عالی مقام سے اپنا مطالبہ منوا نہیں لیا، برابر اس کو پیش کرتے رہے۔
حضرت عثمانؓ بحری جہاد کی ضرورت سے بے خبر نہ تھے۔ مگر مسلمانوں کی جان ان کو بھی ویسی ہی عزیز و محبوب تھی، جیسی حضرت عمرؓ کو تھی۔ اس لئے اس شرط کے ساتھ اجازت دی گئی کہ نہ تو لوگوں کو اپنی رائے سے منتخب کیا جائے، نہ ان میں قرعہ اندازی کی جائے، بلکہ انہیں اختیار دیا جائے کہ جو کوئی خوشی سے (ثواب کی خاطر) بحری جہاد کے لئے تیار ہو، اسے لیا جائے اور اس کی ہر طرح سے امداد و معاونت کی جائے۔
حضرت معاویہؓ نے ایسا ہی کیا اور سیدنا عبد اللہ بن قیس الحارثیؓ کو امیر البحر بنا دیا۔ انہوں نے سردی اور گرمی میں پچاس بحری لڑائیاں لڑیں، جن میں ایک آدمی بھی غرق نہ ہوا اور نہ ہی کسی کو کوئی مصیبت پیش آئی۔ وہ دعا کرتے رہتے تھے کہ حق تعالیٰ ان کے لشکر کو خیر و عافیت سے رکھے اور ان میں سے کسی کو بھی مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ رب تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور ایسا ہی ہوا۔ (طبری، ج 3، ص 317)
آپؓ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کر دیئے۔
’’بحر روم‘‘ میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا، جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت قریبی خطرہ تھا، اسے فتح کیے بغیر شام و مصر کی حفاظت ممکن نہ تھی، اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کر دیا۔ جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔ 28ھ میں آپؓ پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ ’’بحر روم‘‘ میں اترے، لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی، لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر سیدنا حضرت امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے، قبرص (سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص (سائپرس) کو فتح کر لیا، اس لشکر کے امیر و قائد خود سیدنا حضرت امیر معاویہؓ تھے، آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت ابودردائؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد بن اوسؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضور اقدسؐ نے سیدہ امّ حرامؓ والی حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی، ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جنگ کرے گا۔
جب فاروق اعظمؓ اور عثمان ذوالنورینؓ اور حضرت معاویہؓ جیسے خیر خواہ اور خیر اندیش امیر المومنین ہوں اور حضرت ابن قیسؓ جیسے مخلص اور نیک مقبول بارگاہ الٰہی امیر البحر ہوں تو رب تعالیٰ کی رحمت کی موسلادھا بارش کیوں نہ برسے۔ خیرو برکت اور رحمت و نصرت کی حد ہوگئی کہ بحر روم کو شب و روز جولا نگاہ بنا رکھا ہے۔ پچاس لڑائیاں لڑی ہیں، مگر نہ تو پوری فوج میں سے ایک آدمی کام آیا (مارا گیا) نہ ہی پورے لشکر کا کوئی فرد زخمی ہوا۔ بہرحال حضرت معاویہؓ نے حضرت عثمانؓ کی سب شرطیں منظور کرکے عظیم الشان بحری بیڑا تیار کیا اور 28ھ میں پہلا اسلامی بحری بیڑا پہلی دفعہ بحر روم میں اترا۔
اس طرح افریقہ اور یورپ کی سر زمین پر حضرت معاویہؓ کی ہمت اور بلند حوصلگی کے طفیل اسلامی جھنڈا سمندر میں لہرانے لگا اور دین کی تبلیغ و اشاعت کے امکانات دور دراز علاقوں تک پیدا ہوگئے۔ (برأت عثمانؓ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ مکتبہ صدیقیہ حضرو، ص 91 تا 96)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment