کرکٹ کی پاک بھارت قانونی جنگ کا فیصلہ آج متوقع ہے۔ دونوں بورڈز کے آفیشلز نے دلائل مکمل کرلئے ہیں۔ ماہرین نے فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ورلڈکپ کے بعد بھارت کی میزبانی کا موقع مل سکتا ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دوسری جانب بی سی سی آئی کیس کو طول دینے کیلئے کوشاں ہے۔ بھارتی وفد نے آئی سی سی سے سماعت ورلڈکپ 2019 تک ملتوی کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق دبئی میں موجود آئی سی سی ہیڈ کوارٹر میں جاری تنازعات کمیٹی میں پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز کے آفیشلز اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی تنازعات کمیٹی میں بھارت نے اپنا مؤقف پیش کیا۔ آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں دونوں ممالک کے تنازعے کو سننے والا پینل مائیکل بیلوف اور جان پالسن انابیلے بینٹ پر مشتمل ہے۔ پی سی بی کی جانب سے ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین، لندن کے وکیل الیگزینڈروز پینادیز، پی سی بی کے جی ایم لیگل افیئر سلمان نصیر اور وکیل ابراہیم حسین نمائندگی کر رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی جانب سے سابق جنرل منیجر رتناکر شیٹھی اور راجیو شکلا نمائندگی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رتناکر شیٹھی نے گزشتہ روز بھارت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی بی سی آئی بھارت کی ایک سرکاری ملکیت ہے۔ پاکستان کرکٹ کے حوالے سے جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں، پارلیمنٹ کو اعمتاد میں لیا جاتا ہے۔ پاکستان سے سیریز کا معاہدہ بھارتی بورڈ کے سابق سربراہ نے حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر کیا تھا۔ وہ بھی اس لئے کہ بگ تھری اپنے فیصلے کرنے کی خود مجاز تھی۔ لیکن اب یہ نظام ختم ہو چکا ہے۔ لہذا اس معاہدے کی اب کوئی قانونی حثیت نہیں رہی۔ اس دوران راجیو شکلا کا کہنا تھا کہ آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کے میچوں میں وہ پاکستان کے ساتھ مستقل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے اعتراض پر ہی ایشیا کپ متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا۔ بھارتی بورڈ کی نیت پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت، پاکستان کے ساتھ باہمی سیریز کھیلنے کے خلاف نہیں۔ لیکن بارڈرز پر جاری کشیدگی کے باعث بھارتی سرکار کی جانب سے اجازت نہیں ملی۔ لہذا اس حوالے سے فوری فیصلہ دینے سے بہتر ہے کہ معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری تک چھوڑ دیا جائے۔ بھارت کسی قسم کا ہرجانہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ اس سے قبل آئی سی سی کی تنازعات حل کرنے والی کمیٹی کے سامنے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کیس رکھا ہے کہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کے ساتھ گزشتہ دس سال میں کوئی دو طرفہ سیریز نہیں کھیلی گئی۔ پی سی بی کا موقف ہے کہ 2014ء میں ہونے والے معاہدے کے بعد اگر پاکستان بھارت کے ساتھ دو طرفہ سیریز نہیں کھیلا ہے تو پاکستان کو سیریز نہ ہونے سے بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پی سی بی نے 2014ء میں متنازع بگ تھری کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان چھ سیریز ہونا تھیں۔ ان میں 14 ٹیسٹ، 30 ون ڈے انٹر نیشنل اور 12 ٹی ٹوئنٹی شامل تھے۔ لیکن بھارتی بورڈ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے موقف میں کہا ہے کہ بھارتی بورڈ حکومت کے زیر اثر ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ جبکہ بطور گواہ سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کو بھی پیش کیا گیا۔ اس دوران نجم سیٹھی نے اپنے دلائل پیش کیے اور معاہدے کی تفصیلات بتائیں۔ ادھر پاکستان سے قانونی جنگ چھڑتے ہی بھارتی کرکٹ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ جبکہ سابق آفیشلز بھی ممکنہ نتائج سے پریشان ہیں۔ بی سی سی آئی کے سابق صدر انوراگ ٹھاکر اس بات پر بھی خوش نہیں کہ بھارت نے اس معاملے میں قانونی سماعت میں جانے پر رضامندی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ پی سی بی کو ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ پاکستان اور بھارت کا باہمی معاملہ ہے۔ اس میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کیا کام ہے؟ وہ بھارتی ٹیم کو کسی کے ساتھ کھیلنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے بھارتی بورڈ پر کسی بھی قسم کا دباؤ انٹرنیشنل بحران کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ انوراگ ٹھاکر نے روایتی متعصب بھارتی سیاستدانوں کی طرح پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلے دہشت گردی کو ختم کرے، پھر اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے بارے میں سوچا جائے گا۔ واضح رہے کہ آئی سی سی کی ڈسپیوٹ کمیٹی کا فیصلہ دونوں فریقین کو ماننا پڑے گا۔ اور یہ کہ اس فیصلے کو کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی چیلنج نہیں کر پائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭