سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

مولانا محمد صادق خلیل کا خواب:
مولانا محمد صادق خلیل مشہور و معروف مدرس اور عالم دین تھے۔ جامعہ تعلیم الاسلام اوڈا نوالہ میں کئی سال تک پڑھاتے رہے۔ پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں کئی سال تک تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ کئی کتب کے انہوں نے تراجم کیے ہیں۔ مولانا صادق خود بتاتے ہیں کہ جب وہ اسکول میں پڑھتے تھے تو تقریباً انہیں ہر رات یہ خواب آتا تھا کہ وہ فضا میں اڑ رہے ہیںاور اڑتے اڑتے اپنے ساتھی طالبان علم سے کہتے ہیں: آؤ تم بھی میرے ساتھ اڑو۔ وہ تو ان کا ساتھ نہیں دیتے تھے، لیکن یہ خود اڑتے ہوئے دور تک پہنچ جاتے۔ پھر نہایت آسانی سے جب جی چاہتا فضا سے زمین پر آجاتے۔ وہ یہ خواب مسلسل دیکھتے رہے۔
اس کی تعبیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ان کے بے شمار شاگرد ہیں، جنہوں نے ان سے تعلیم حاصل کی اور ان کے ذریعے دور دراز علاقوں تک علم پہنچا۔ پھر تصنیف و تالیف اور بہت سی عربی کتب کے اردو ترجمے کر کے علم دین کو فروغ دیا۔ یوں وہ دین کی اشاعت میں اپنے رفقاء سے سبقت لے گئے۔ (قافلہ حدیث محمد اسحاق بھٹی، ص:573.572)
مسجد سے گندگی کو اٹھانا:
راقم الحروف (مصنف) جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا۔ تعلیم کا آخری سال تھا۔ ہم علامہ حافظ محمد گوندلویؒ سے بخاری شریف اور تفسیر القرآن پڑھتے تھے۔ حافظ صاحب کا معمول تھا کہ مدرسہ آتے، دو رکعت نماز ادا کرتے، پھر پڑھانے میں مشغول ہوجاتے۔ دوران تعلیم چاہے کوئی بھی بڑے سے بڑا شخص آجاتا، اس کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ پڑھانے کے بعد لیٹ جاتے۔ اکثر طلبہ ان کا بدن دباتے۔ آدھ گھنٹہ دباتے رہتے اور مختلف موضوعات پر سوالات بھی پوچھتے رہتے۔ حافظ صاحب کوحق تعالیٰ نے تمام علوم سے نوازا تھا۔ جس موضوع پر گفتگو کرتے ایسا معلوم ہوتا کہ اس میں یکتا ہیں۔
1968ء کی بات ہے کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ مسجد کے اندر محراب کے قریب گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ اس خواب کا ذہن پر بڑا اثر تھا کہ مسجد کے اندر گندگی کسی نے کی اور اسے میں نے اٹھایا۔ حضرت حافظ صاحب سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں فرمایا: یہ اچھا خواب ہے۔ حق تعالیٰ تم سے مسجد کی خدمت لے گا۔خدا کا احسان ہے فارغ ہونے کے بعد مسجد کے ساتھ تعلق رہا، کچھ مساجد تعمیر بھی کرائیں۔ بعض مساجد میں دعوت و تبلیغ بھی کرتے رہے اور آج تک رب تعالیٰ اپنے دین کی تھوڑی بہت خدمت لے رہا ہے۔ رب تعالیٰ سے دعا ہے وہ قبول و منظور بھی فرمائے اور عمل کی توفیق بھی بخشے۔
مولانا محمود احمد میر پوریؒ سے ملاقات:
مولانا میر پوریؒ کے ساتھ زمانہ طلب علم ہی سے تعلق رہا۔ انہی کی وساطت سے راقم الحروف برطانیہ آیا۔ برطانیہ آنے کے بعد سالہا سال انھی کے ساتھ رہا۔ پھر وہ خدا کو پیار ہوگئے۔ ان کی وفات کا اثر ذہن پر بہت زیادہ تھا۔ اسی وجہ سے ان کی تین کتب مرتب کیں۔ پھر ان کے صاحبزادوں کے ساتھ بھی رابطہ رہا۔
مولانا سے ایک رات خواب میں ملاقات ہوئی۔ بڑی کانفرس ہورہی ہے۔ وہ اس کانفرس میں تشریف لائے ہیں۔ ان سے سوال کیا: مولانا! آپ اتنی دیر کہاں رہے؟ آپ کے بارے میں تو یہ مشہور تھا کہ آپ فوت ہوگئے ہیں، لیکن آپ پھر تشریف لے آئے ہیں؟ ان سے مختلف امور کے بارے میں کچھ بات چیت ہوئی۔ انہیں دعوت دی کہ آپ مرکز میں تشریف لائیں، کہنے لگے: آپ جائیں کام کریں، پھر ملاقات ہوگی۔
میں اس خواب کی تعبیر سوچتا رہا۔ اب جبکہ ان کا صاحبزادہ عزیزم حافظ محمد عقیل سعودی عرب سے فارغ ہوکر آگیا ہے۔ مرکز میں اس نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اب کانفرس میں شیوخ کی تقاریر کے ترجمے بھی کررہا ہے اور مرکز میں جمعہ کے خطبے بھی دے رہا ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے مولانا نے جو مشن شروع کیا تھا، ان کے صاحبزادے نے وہی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ شاید اس سلسلے میں ہم نے بھی اس کی کچھ رہنمائی کی ہے۔ جس کی بنا پر مولانا نے یہ کہا تم جاؤ، میں پھر آؤں گا۔
خدا کا شکر ہے توحید کا جو پودا مولانا نے لگایا تھا اب ان کے صاحبزادے علمی طور پر اس کی آبیاری کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment