عقبہ بن نافعؒ اپنے ایک سفر میں ایک لق دق صحرا سے گزر رہے تھے، سفر بہت طویل تھا اور رستہ بھی اجنبی، پھرتے پھرتے ایک مقام پر پہنچے، جہاں لشکر کا پانی ختم ہوگیا، درد دور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا، اس پریشانی کی حالت میں حضرت عقبہ بن نافعؒ نے دو رکعت نماز پڑھ کر طویل دعا کی، خدا کی شان دیکھیں کہ اسی وقت عقبہؒ کے گھوڑے نے اپنے سم سے زمین کو کریدنا شروع کیا، جب تھوڑی دیر گزری تو ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ تمام مجاہدین نے پتھر اٹھایا تو اس کے نیچے سے ایک خوشگوار اور ٹھنڈے پانی کا چشمہ نکل آیا۔ سب لوگ بہت خوش ہوئے اور خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھی پانی سے بھردیئے۔ پھر اس جگہ کا نام ماء الفرس یعنی گھوڑے کا (پانی کا چشمہ) ہوگیا اور لوگ اس جگہ کو اسی نام سے یاد کرنے لگے۔ (ناقابل فراموش تاریخ کے سچے واقعات ص 101)
سنت کی اتباع!
حضرت بشر حافیؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں آں حضرتؐ کی زیارت کی۔ آپؐ نے فرمایا: اے بشر! تم جانتے ہو کہ تمہیں حق تعالیٰ نے تمام ہم عصر لوگوں پر فوقیت و فضیلت کس لئے دی ہے؟
میں نے عرض کی کہ حضور! میں واقف نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اس فضیلت کا سبب یہ ہے کہ تم میری سنت کی اتباع کرتے ہو اور نیک لوگوں کی عزت کرتے ہو اور اپنے بھائیوں کی خیر خواہی کرتے ہو۔
زندگی کا مقصد!
پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک ہم ساری زندگی گزار دیتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے، ہمارا دنیا میں آنے کا بس ایک ہی مقصد ہے خدا کو راضی کرنا، اس کا قرب حاصل کرنا، اس سے نسبت حاصل کرنا، اس کا تعلق اور اس کی معرفت حاصل کرنا، اس کی صفات عالیہ کو جاننا اور زندگی کا ہر لمحہ اس کے مطابق گزارنا، رسول اکرمؐ کی اطاعت کرنا، آپؐ کے قریب ہونا، آپؐ کی ذات کو دنیا کی چیز سے بڑھ کر محبوب جاننا۔
ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچنا آیا یہ قدم آں حضرتؐ کو خوش کرے گا یا ناراض کرے گا؟ اس لئے کہ آں حضرتؐ کی اطاعت میں خدا کی اطاعت ہے، کیا ہم نے اپنی زندگیوں کا یہ مقصد بنایا ہے؟ اگر نہیں بنایا تو سوچنے اور اپنے مقصد زندگی کو درست کیجئے، اس لیے کہ جو یہاں بوؤ گے وہی آخرت میں کاٹو گے۔ (النصائح و العبر)
٭٭٭٭٭