ضیا ءالرحمن چترالی
مورس کا کہنا تھا کہ ایک دن میں اپنی رہائش گاہ کی کھڑکی سے نیچے گلی میں جھانک رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی مسجد دکھائی دی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف شخص آیا اور اندر چلا گیا، جو تھوڑی دیر کے بعد اکیلا ہی اندر سے باہر نکلا اور واپس چلا گیا۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ ایک ہی آدمی ہے، جس نے عبادت کی ہے، پھر کچھ دیر کے بعد اذان کی آواز سنائی دی، وہ شخص آیا اور مسجد میں چلا گیا۔ میں اپنی عمارت سے اترا اور مسجد میں گیا، وہاں باہر جوتوں کا ایک ہی جوڑا پڑا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے بھی جوتے اتارنے چاہئیں۔ چنانچہ میں جوتے اتار کر مسجد کے اندر گیا تو وہ ضعیف شخص نماز پڑھ رہا تھا اور سجدے میں تھا۔ میں نے بھی اسے دیکھ کر اسی طرح سجدہ کیا اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے دیکھتا، میں مسجد سے باہر نکل آیا۔
اس کے بعد میں نے اپنے مصری انجینئر دوست سے تقاضا کیا کہ وہ مجھے خلائی سفر کا تذکرہ قرآن کریم میں دکھائے اور کوئی اچھا سا انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا مجھے مہیا کرے۔ اس پر وہ مجھے ایک مارکیٹ میں لے گیا، جو بہت خوبصورت اور سجی ہوئی دکانوں پر مشتمل تھی، اس کے درمیان میں ایک پرانی سی دکان میں ایک ضعیف شخص بیٹھا تھا، دکان کی حالت بہت خستہ تھی، کتابوں پر گرد جمی ہوئی تھی، وہاں سے میں نے قرآن کریم کا یوسف طلال علی والا انگلش ترجمہ خریدا اور اپنے دوست سے تقاضا کیا کہ وہ مجھے قرآن کریم کی وہ آیت دکھائے، جس میں خلائی سفر کا ذکر ہے۔ وہ سمجھدار آدمی تھا۔ اس نے کہا کہ قرآن کریم ساتھ لے جاؤ، اس کا مطالعہ کرو، تمہیں خود ہی وہ آیت بھی مل جائے گی۔ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کر دیا۔
سورۃ الفاتحہ اور اس کے بعد سورۃ البقرہ کی چالیس پچاس آیات پڑھیں، یہاں تک مجھے وہ خلائی سفر والی آیت تو نہ ملی، مگر میرے دل میں یہ بات اترنے لگی کہ یہ کتاب بہرحال سچی ہے اور ہدایت کا وہ راستہ اس میں موجود ہے، جس کی مجھے بچپن سے تلاش تھی۔ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ جاری رکھا، دو سال کے مطالعے کے بعد مجھے وہ آیت مل گئی، جس میں خلائی سفر کا تذکرہ اس طرح ہے کہ حق تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اگر تم میرے حکم کے بغیر زمین اور آسمان کے کناروں سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ مگر میرے حکم کے بغیر تم ایسا نہیں کر سکو گے۔
مورس نے بتایا کہ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کم و بیش چھ سال جاری رکھا اور اس کے ساتھ ہی میرے دل میں دنیا سے بے رغبتی بڑھنے لگی، زندگی بے مقصد نظر آنے لگی اور بے مزہ سی ہو کر رہ گئی۔ مجھے ویسٹرن طرز زندگی سے نفرت ہونے لگی، مگر میری حالت یہ تھی کہ قرآن کریم پڑھ کر روتا رہتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ نشہ بھی کرتا تھا۔ ایک دن میں نیوکاسل میں اپنے گھر میں تھا کہ صبح بیدار ہوتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے میں گھر سے باہر جا رہا ہوں اور پھر میں قریب ہی واقع ایک مسجد میں چلا گیا۔ اس سے قبل میں یہاں کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے مجھے کلمہ شہادت پڑھایا اور میرا نام تبدیل کر کے مورس بڈن کے بجائے مورس مجید رکھ دیا۔ اس کے بعد تبلیغی جماعت والوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھایا اور نام مورس عبد المجید کر دیا۔ پھر میرا کچھ عرصہ ان سے تعلق رہا۔ اس کے بعد مختلف مقامات پر جاتا رہا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭