مفتی مظفر حسین صاحبؒ زمانہ طلب علمی میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے یہاں پڑھنے گئے۔ آپ فارسی وغیرہ پڑھ چکے تھے۔ مالابد منہ (فارسی میں فقہ کی ایک کتاب) وغیرہ کتابیں پڑھ چکے تھے۔ یہ ان سے پہلے کی لکھی ہوئی ہیں۔ ان کو پڑھ کر مسائل سے خوب واقف ہوگئے۔ تحصیل علم کے لئے حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں دہلی پہنچے۔
کھانے کا وقت تھا۔ اندر سے کھانا آیا۔ روٹی تو کھالی، لیکن دال نہیں کھائی۔ جب دال کا برتن واپس اندر پہنچا تو حضرت شاہ صاحبؒ کی اہلیہ صاحبہ نے کہا یہ کون لڑکا آگیا ہے کہ روکھی روٹی کھانا تو منظور، مگر دال کھانا نامنظور نہیں۔ پھر روزانہ ان کے لئے گوشت ہونا چاہئے۔ شاہ صاحبؒ تک بات پہنچی۔ آپ نے فرمایا میں تحقیق کرتا ہوں۔ بلا تحقیق کسی پر الزام لگانا یہ کوئی اچھی بات نہیں (یہ علماء ربانی کی شان ہے)
چنانچہ آپ نے باہر تشریف لاکر پوچھا: لڑکے تم نے دال نہیں کھائی، کیا پرہیز ہے؟ (حضرت کے پوچھنے کا ذرا انداز تو دیکھیں) تم نے روٹی تو کھالی، مگر دال نہیں کھائی۔ طالب علم نے عرض کیا: نہیں حضرت بس جی نہیں چاہا (کیسا عاجزانہ جواب دیا، فوراً اپنے آپ کو متقی ظاہر نہیں کیا) شاہ صاحبؒ نے فرمایا نہیں نہیں، بتاؤ کیا بات ہے؟
ادب سے عرض کیا حضرت بات یہ ہے کہ دال میں کھٹائی پڑی تھی آم کی اور اس زمانے میں یہی طریقہ چلا آرہا تھا کہ اکثر و بیشتر آموں کے باغات بلا پھل آئے ہوئے فروخت کر دیئے جاتے تھے اور اس طرح کی تجارت وبیع ناجائز ہے۔ عرض کیا کہ اس دال میں آم کی کھٹائی پڑی ہوئی تھی، اس لئے میں نے دال نہیں کھائی۔
حضرت نے فرمایا: ہمارا تو کبھی ادھر خیال ہی نہیں گیا۔ اندر جا کر اہلیہ محترمہ سے فرمایا: حق تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے ہماری اصلاح کے لئے۔ ہمارا کبھی اس طرف ذہن ہی نہیں گیا۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اچھے اچھے نظر ادھر نہیں پہنچتی، چھوٹے کی نگاہ پہنچ جاتی ہے۔ یہ ہے اکابرین کا طریقہ اس لئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے عظیم صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس طالب علم کی بات قبول کرلی اور فرمایا کہ آئندہ سے بازاری آموں کا آنا منع ہے۔ جب تک تحقیق نہ ہو جائے کہ کون سے باغ کے ہیں۔ پھل پر بکے ہوئے باغ کے ہیں یا بلا پھل کے بکے ہوئے ہیں۔ غور فرمائیں وہ طالب علمی کا ایسا زمانہ تھا اور اب ایسا وقت آگیا ہے کہ تاویلوں کے ساتھ جائز کیا جاتا ہے۔ (بحوالہ مقام علم ص 30)
ایک لقمہ خود کھایا ایک کتے کو کھلایا
حضرت نعیمؒ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں جب نواسہ رسول، سیدنا حسنؓ کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ ایک روز آپؓ دوڑتے ہوئے آئے اور آکر رسول اقدسؐ کی گود میں بیٹھ گئے (حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے ہاتھ سے اپنی ڈاڑھی پکڑ کر دکھایا کہ) اس طرح حضورؐ کی ریش مبارک ہاتھ سے پکڑنے لگے اور آپؐؐ اپنا دہن مبارک کھول کر ان کے منہ میں ڈالنے لگے اور فرماتے جارہے تھے: ’’خدایا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔‘‘
یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی۔
ابن عساکر نے حضرت حسنؓ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بار مدینہ منورہ کے کسی (چہار دیواری سے گھرے ہوئے) باغ کی طرف سے گزر رہے تھے کہ ایک نو عمر حبشی غلام کو بیٹھے دیکھا، اس کے ہاتھ میں ایک روٹی تھی اور اس کے سامنے کتا بیٹھا تھا۔ وہ لڑکا ایک لقمہ خود کھاتا اور ایک لقمہ کتے کو کھلاتا۔ اس طرح پوری روٹی تقسیم کر کے آدھی اس کو کھلا دی۔
حضرت حسنؓ نے پوچھا تم نے اپنی روٹی میں کتے کو شریک کیوں بنا لیا؟ کہنے لگا میری آنکھیں اس کی آنکھیں دیکھ کر شرم محسوس کرتی تھیں کہ میں زیادہ کھا جاؤں۔ حضرت حسنؓ نے پوچھا تم کس کے غلام ہو؟ کہا میں ابان بن عثمانؓ کا غلام ہوں۔ پوچھا: یہ احاطہ کس کا ہے؟ کہا ابان کا۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جب تک واپس نہ آجاؤں، تم یہیں بیٹھے رہنا۔ چنانچہ آپؓ گئے اور اس غلام کو خرید لیا اور احاطہ بھی خرید لیا اور غلام کے پاس آکر فرمایا میں نے تم کو خرید لیا۔ اس نے اٹھ کر کہا: خدا اور اس کے رسولؐ کے بعد میں آپ کے احکام سننے والا اور فرمانبردار ہوں۔ پھر حضرت حسنؓ نے فرمایا اب تو میری طرف سے آزاد ہے اور یہ احاطہ میں نے تجھے ہبہ کردیا۔
٭٭٭٭٭