نواب مرزا تو ٹوپی کُرتا درست کرتا ہوا بھاگ کر مردانے دروازے پر گیا اور مولوی صاحب کو سلام کر کے ہوادار سے اتار کر بصد تکریم دیوان خانے میں لے آیا۔ اس درمیان اندر سے آواز آچکی تھی کہ پردہ ہے، اور بیگم صہبائی صاحب کی پالکی زنانہ دروازے پر لگا دی گئی تھی اور چادر کا پردہ چاروں طرف کھنچوا دیا گیا تھا۔ ڈیوڑھی کے پردے کے پیچھے بڑی بیگم نے ان کا استقبال کیا، اہتمام کے ساتھ آنگن کے پار اندرونی دالان میں لائیں اور انہیں صدر میں بٹھایا۔ تشریف آوری کی غایت پوچھنا خلاف تہذیب تھا۔
صہبائی بیوی کی عمر تیس اور پینتیس کے درمیان تھی، لیکن ان کے بالوں میں کہیں کہیں سے چاندی کے تار چمکتے تھے، شاید مزمن زکام کا اثر رہا ہو۔ لیکن ان کے چہرے سے چونچال پن اور خوش طبعی ٹپکتی تھی۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ، ذرا سا دوہرا گداز بدن، بوٹا سا قد، متوسط لیکن روشن آنکھیں، غرض بڑی دلکش اور دلچسپ لگتی تھیں۔ میاں پکے دلی والے تھے، لیکن وہ پانی پت کی تھیں اور ان کے لہجے میں تھوڑا سا ہریانوی کڑک پن تھا۔
مولانا صہبائی کو توقع تھی کہ مولوی محمد نظیر موجود ہوں گے۔ یہاں انہیں ان کے بجائے نواب مرزا کو دیکھ کر یک گونہ تردد ہوا کہ نواب مرزا کی موجودگی میں حرف مطلب زبان پر لانا ٹھیک نہ ہوتا۔ یوں وہ نواب مرزا کو پہچانتے تھے اور زینت باڑی کے مشاعرے میں وہ نواب مرزا کی غزل پر خصوصی داد بھی دے چکے تھے۔ سلام دعا کے بعد مولوی صاحب نے فرمایا: ’’بھئی نواب مرزا، تم آج خوب ملے۔ تمہاری شعر گوئی کے چرچے ما شاء اللہ پھیلتے ہی جاتے ہیں۔ ادھر شیخ ناسخ کے ایک سہ غزلہ کے بڑے چرچے رہے۔ پہلی غزل کا پہلا مصرع تھا، کیا بحر حسن کی ہے کمر پیچ و تاب میں۔ وہ سارا ہی سہ غزلہ بہت مقبول ہوا‘‘۔
’’جی ہاں حضرت، اس کے تو بڑے شہرے ہیں۔ مطلع اول ہی کیا غضب تھا۔
کیا بحر حسن کی ہے کمر پیچ و تاب میں
یہ پیچ و تاب کب ہیں بھلا موج آب میں‘‘۔
’’سبحان اللہ‘‘۔ مولوی صاحب بولے۔ ’’مرزا نوشہ نے بھی دو غزلہ کہہ ڈالا اور میاں کیا کیا خیال آرائیاں کی ہیں۔ اجی صاحب زادے تم بھی کچھ فکر کرتے تو لوگ دیکھتے کہ معاملے کے مضمون کیونکر اس زمین میں بندھتے ہیں‘‘۔
نواب مرزا کے چہرے پر مسکراہٹ سی آئی، جس میں کچھ چالاکی بھی شامل تھی، اور کچھ یہ تاثر بھی تھا جیسے وہ کسی لطیفے پر دل ہی دل میں ہنس رہا ہو، لیکن مولانا اس لطیفے پر مطلع نہیں ہیں۔ لیکن مولوی صہبائی غیر معمولی مشاہدہ اور تیز ذہن کے آدمی تھے، فوراً سمجھ گئے کہ اس مسکراہٹ میں کوئی رمز ہوگی جو فی الوقت مجھ پر مخفی ہے۔ لیکن اس وقت مجھے یوں ہی تجاہل برتنا ہے گویا کوئی بات ہی نہیں ہے۔
’’جی ہاں حضرت۔ مگر شیخ صاحب مبرور نے ’’جواب‘‘ کا قافیہ مبتذل جان کر ترک کیا تھا…‘‘۔
’’اچھا، یہ تو کسی نے خیال ہی نہیں کیا‘‘۔
’’جی، اور مرزا نوشہ صاحب نے شاید یہ فرمایا کہ شیخ مرحوم یہ قافیہ ہمارے لیے چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ میرزا صاحب نے شعر فرمایا
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں…‘‘۔
’’ہا! کیا مصرع بہم پہنچایا مرزا صاحب نے…‘‘۔ مولوی صاحب نے زانو پر ہاتھ مار کر مصرع ثانی پڑھا
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
’’سبحان اللہ، ایسی وقوعہ گوئی اور ایسی مضمون آفرینی‘‘۔ مولوی صاحب نے بڑے جوش سے پورا شعر دہرایا۔ اتنی دیر میں نواب مرزا کی مسکراہٹ کچھ اور پھیل چکی تھی، لیکن اس نے ابھی کچھ کہا نہ تھا۔ اس کی خاموش مسکراہٹ کو دیکھ کر مولوی صاحب اب معاملے کی تہہ کو پہنچ گئے۔
’’تو نواب مرزا یہ بات ہے۔ تم نے بھی اس قافیے کو نظم کیا ہے! اچھا ذرا اپنا شعر تو سنا دو‘‘۔
ایک پل کے توقف کے بعد نواب مرزا نے فتح مندانہ لیکن متین لہجے میں پڑھا
کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں…
’’تو تم نے مطلع کیا ہے، خوب۔ اچھا مصرع نکالا۔ پھر سے پڑھو‘‘۔ مولوی صاحب نے کہا۔
نواب مرزا نے پورا شعر ایک عجب روانی کے ساتھ سر جھکائے جھکائے پڑھ دیا
کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
مولوی صاحب پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ دل پکڑ کر بیٹھ گئے اور ’’ان کی طرف سے آپ لکھے‘‘ بار بار زیرلب پڑھنے اور جھومنے لگے۔ نواب مرزا تو گھبرا گیا کہ یہ کیا حال ہو رہا ہے۔ اس نے دوڑ کر مولانا صاحب کے سامنے ناگردان کھول کر رکھا، اس میں سے عطر کی شیشی نکالی اور بہت ذرا سا عطر اپنے دستمال پر لگا کر اس دستمال سے مولانا کے ہاتھوں اور کلائیوں پر ہلکی ہلکی مالش کی، تاکہ ان کا دھیان بٹے۔ پھر اس نے خاص دان سے طلائی ورق لگی ہوئی گلوری نکال کر پیش کی اور بہت آہستہ سے کہا: ’’حضور، یہ گلوری تو نوش فرما لیتے‘‘۔
’’ایں، کیا کہا؟ گلوری۔ بہت خوب، مگر میاں اپنی طرف سے آپ لکھے… واہ واہ، وقوعہ گوئی اور یہ بے ساختگی اور ربودگی۔ اللہم زد فزد۔ اچھا میاں کچھ اور شعر اسی زمین کے سنائو، میرا تو جی چاہتا ہے کہ ایسی غزلیں حضرت عالم پناہی ظل الٰہی کی خدمت اقدس میں پیش ہوں…‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭