اسمگلروں کے سرکاری سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی امید

عمران خان
اسمگلروں کے سرکاری سرپرستوں کیخلاف کارروائی کی امید نظر آنے لگی ہے۔ محکمہ کسٹم کراچی اور ایف بی آر کے مختلف شعبوں بشمول اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (ASO)، ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن، اپریزمنٹ ویسٹ، اپریزمنٹ ایسٹ اور اپریزمنٹ پورٹ قاسم میں موجود کرپٹ افسران اور ان کے پرائیویٹ کارندوں ’’لپوئوں‘‘ کے خلاف تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کر دی ہے۔ مذکورہ رپورٹ وفاقی حکومت کو ارسال کی جائے گی، جس میں قومی خزانے کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی مافیا کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے بقول گزشتہ دنوں ایف بی آر ان لینڈ ریونیو میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے والے شہزاد کو حساس اداے کی ٹیم نے حراست میں لیا، جس سے ایک ماہ تک طویل تفتیش کی گئی۔ اس تفتیش کے دوران شہزاد کے موبائل سے 31 اسمگلروں جن میں کئی امپورٹر اور کلیئرنگ ایجنٹ شامل تھے، کے رابطے ملے۔ اس کے علاوہ شہزاد سے مزید معلوم ہوا کہ تمام امپورٹرز اور کلیئرنگ ایجنٹوں سے اس نے کسٹم کے 9 افسران سے سیٹنگ کروا رکھی تھی، جو کراچی کے مختلف شعبوں میں تعینات ہیں۔ مذکورہ انکشافات کے بعد تحقیقاتی ادارے کے افسران کی جانب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع اور ایک مفصل رپورٹ تیار کرنے کے احکامات جاری کئے گئے، تاکہ اس پوری مافیا کو بے نقاب کیا جا سکے۔
ذرائع کے بقول شہزاد کے بعد ایک دوسرے ’’لپو‘‘ عادل کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ جس میں معلوم ہوا ہے کہ عادل انتہائی سرگرم ہے۔ یہ بنیادی طور پر کلکٹوریٹ پریونٹو اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (ASO) کا ورکر ہے۔ تاہم اسے تمام ریلوے اسٹیشنوں پر کام کرنے والے اسمگلر، کھیپئے اور ٹرانسپورٹرز جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونکس مارکیٹ کے درجنوں ڈیلرز بھی عادل سے ہی رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے بقول عادل وہ مرکزی کردار ہے جو ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ اور غیر قانونی کلیئرنس کروانے والے امپورٹروں، کلیئرنگ ایجنٹوں اور اسمگلروں کے معاملات کسٹم افسران کے ذریعے طے کراتا ہے۔ اس کے حلقہ احباب میں 7 کسٹم افسران ہیں، جنہوں نے زیادہ تر کسٹم پریونٹو میں ملازمتیں کی ہیں۔ تاہم اس وقت یہ افسران اے ایس او کا حصہ ہیں۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کسٹم (ڈی آئی ٹی) میں سرگرم لپوئوں کے علاوہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم، ویسٹ اور ایسٹ میں بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے، جس میں ایک ماہ کے دوران درج ہونے والے مقدمات میں نامزد 10 کسٹم افسران کے علاوہ بعض دیگرکا موبائل فونز کا ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے سی ڈی آرز کا ڈیٹا بھی رپورٹ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ان افسران میں اپریزنگ آفیسر سدا بہار، اپریزنگ آفیسر محمد ادریس، اپریزنگ آفیسر شاہد مراد، اپریزنگ آفیسر نجیب عابد، پرنسپل اپریزر سلطان اورنگزیب، ڈپٹی کلیکٹر عدنان قمبرانی، اپریزر چوہدری اصغر اور دیگر شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول چار روز قبل کسٹم کلیکٹریٹ پورٹ قاسم کے حکام نے بال کلے (مٹی) کی آڑ میں ممنوعہ قرار دیا گیا اجینوموتو کلیئر کرانے کا مقدمہ درج کیا۔ ذرائع کے مطابق کسٹم کلکٹریٹ پورٹ قاسم میں کسٹم انٹیلی جنس یونٹ (سی آئی یو) کے حکام نے اپریزنگ افسر شبیر علی خان کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر 35/2018 میں میسرز محسن علی کے مالک محسن، کلیئرنگ ایجنٹ سمیع اللہ اور کسٹم ایگزامنیشن افسر ملک سدا بہار کو نامزد کیا، جسے گزشتہ روز حراست میں لیا گیا۔ تاہم بدھ کے روز مذکورہ افسر نے ضمانت حاصل کرلی۔ کسٹم افسر سدا بہار گزشتہ 15 دن میں دوسرے مقدمے میں نامزدہوئے ہیں۔ ذرائع کے بقول پورٹ قاسم کے ایم ٹی او یارڈ میں چین سے درآمد کی گئی گڈز ڈیکلیریشن کی میسرز محسن پلاسٹک این ٹی این نمبر (7206142-4) نے 13900 کلو گرام بال کلے (مٹی) ظاہر کر کے کلیئرنس حاصل کی، جسے ایم ٹی او یارڈ میں موجود کسٹم ایگزامنگ افسر ملک سدا بہار نے کلیئرکر کے کنسائنمنٹ کو پورٹ سے نکلنے کی اجازت دی۔ تاہم پورٹ قاسم پر کسٹم انٹیلی جنس یونٹ (سی آئی یو) نے روک کر ری ایگزامنگ کی تو بال کلے کی جگہ اجینو موتو برآمد ہوا، جس کا وزن 10 ہزار کلو گرام تھا۔ امپورٹ پالیسی آرڈر 2016ء میں ایس آر او1)18) 226 کے تحت اجینو موتو کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مقدمہ میں ابھی تک کسی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔ مذکورہ کسٹم ایگزامنیشن افسر ملک سدا بہار کے خلاف 15 دن قبل ایم ٹی او یارڈ سے مس ڈیکلیریشن کے ذریعے کنسائنمنٹ کلیئر کرانے پر کسٹم کے حکام نے مقدمہ درج کیا تھا، جس پر ایگزامنیشن افسر نے عدالت سے قبل ازوقت گرفتاری ضمانت حاصل کر کے دوبارہ ڈیوٹی جوائن کرلی تھی۔
اس سے قبل پورٹ قاسم کلکٹریٹ سے ہی جعلی بل آف لینڈنگ کے ذریعے کلیئر ہونے والے کنٹینرز کیس میں ڈپٹی کلیکٹر اور دو اپریزنگ افسران کے خلاف رپورٹ ممبر کسٹم کو ارسال کر دی گئی۔ رپورٹ میں کلیکٹر پورٹ قاسم چوہدری جاوید کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا گیا۔ اسمگلنگ میں ملوث کمپنی نے رواں برس 6 کنسائنمنٹ کے ذریعے 100 سے زائد کنٹینر پورٹ قاسم کلیکٹوریٹ سے کلیئر کرائے، جبکہ سینئر ترین ایگزامنگ افسران نے 100 فیصد ایگزامنیشن کرنے والے کنٹینرز کو مکمل جانچ کئے بغیر کلیئر کیا۔ میسرز الوحید امپیکس نے رواں برس 6 کنسائنمنٹ میں 80 سے زائد کنٹینر پورٹ قاسم کلکٹوریٹ سے کلیئر کرائے۔ 2 کنسائنمنٹ کے 30کنٹینر میں آٹو پارٹس ظاہر کیے گئے تھے۔ جبکہ 4 کنسائنمنٹ کے 50 کنٹینر میں کٹنگ پیپر اسکریپ ظاہر کیا گیا۔ تاہم اس کنسائنمنٹ کے آخری 13 کنٹینر سے پریونٹو کے حکام نے چھالیہ برآمد کرلی، جس کے بعد اس کمپنی کے رواں برس کلیئر ہونے والے سب کنٹینرز کو مشکوک قرار دے دیا گیا۔ کسٹم قوانین کے مطابق پیپرز کٹنگ اسکریپ کے کنسائنمنٹ کی 100 فیصد ایگزامنیشن ضروری ہوتی ہے، جس کی نگرانی کلیکٹر کو کرنا ہوتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کنسائنمنٹ میں سینئر ترین اپریزنگ افسر محمد ادریس نے 2 کنسائنمنٹ کی ایگزامنیشن کی، جبکہ اپریزر سدا بہار نے بھی 2 کنسائنمنٹ کی ایگزامنیشن کی۔ ان چاروں کنسائنمنٹ کی ایگزامنیشن ڈپٹی کلیکٹر حامد قمبرانی کی نگرانی میں کی گئی اور ان تمام افسران نے اپنی آئی ڈی پر مذکورہ تمام کنسائنمنٹ کو کلیئر کرنے کیلئے 100 فیصد ایگزامنیشن اور تمام کنسائنمنٹ کو اسکیننگ مشین سے گزارنے کا بھی ذکر کیا۔ مذکورہ کمپنی کے تمام کنسائنمنٹ کلیئر کرانے کی ذمہ داری کلیئرنگ ایجنٹ احسان اللہ بھٹی کی تھی۔ تاہم کسٹم پریونٹو کی کارروائی کے بعد سے کلیئرنگ ایجنٹ فرار ہے۔ کسٹم حکام میسرز الوحید کے مالک وحید احمد، اس کے ساتھی محمد عرفان اور دیگر کو گرفتار کر کے تفتیش کر رہے ہیں۔ اسی کیس میں تحقیقات کرتے ہوئے جب کسٹم افسران محمد ادریس، سدا بہار، سلطان اورنگزیب کا کال ڈیٹا حاصل کیا گیا تو یہ افسران عرفان نامی لپو سے رابطے میں معلوم ہوئے، جس پر ان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔ اسی طرح ماڈل کسٹم کلیکٹوریٹ ویسٹ پر دو کسٹم افسران نجیب اور شاہد بھی پرائیویٹ لپوئوں کے ذریعے امپورٹرز اور کلیئرنگ ایجنٹوں سے رابطے میں رہے، جن کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دونوں افسران کے خلاف گزشتہ روز 33کنٹینرز غیر قانونی طور پر کلیئر کرنے کے کیس میں مقدمہ درج کیا گیا، جس میں ان کے ساتھ 6 کمپنیوں کو بھی نامزد کیا گیا۔
ذرائع کے بقول یہ تحقیقاتی رپورٹ بہت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اسی کی بنیاد پر کسٹم اور ایف بی آر میں موجود کالی بھیروں کا صفایا کرنے اور ان کے سرپرست اعلیٰ افسران کے تبادلہ میں معاونت ملے گی۔ رپورٹ پر تیزی سے کام جا ری ہے، جس کیلئے ممبر کسٹم نے احکامات جاری کئے ہیں کہ جلد سے جلد رپورٹ مکمل کرکے چیئرمین آفس ارسال کی جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment