روسی میڈیا امریکہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے

سجاد عباسی
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قونصلر بلال وحید سمیت تمام پاکستانی مندوبین نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے اور پاک روس تعلقات مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک خطے میں رہنے والے لوگ بہت سے معاملات میں مشترکات پر متحد ہو سکتے ہیں ۔ روسی میزبانوں نے پاکستانی وفد کا پرجوش خیر مقدم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان عوامی رابطے (People to People Contact) کی اہمیت اجاگر کی۔ اس حوالے سے کلیدی خطاب سینٹر آف پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سرگئی کیمینیف کا رہا جن کا کہنا تھا کہ روس اور پاکستان کے درمیان میڈیا وفود کے تبادلے کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر بھی معلومات شیئر کرنی چاہیے اور ایک دوسر ے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جب دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہوں گے اور مسائل سمجھیں گے، تو ریاستوں کے درمیان قربت کی بنیاد بھی مستحکم ہو گی۔ پاکستان کو اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ روس بھارت تعلقات کی تاریخ کتنی پرانی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی اپنی اسٹرٹیجک اہمیت ہے، جسے نظر انداز کرنا روس کیلئے ممکن ہی نہیں۔ بالخصوص دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کا تعاون، دوستی کی کلید بن سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر توانائی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسٹڈیز سینٹر کی سینئر اسکالر ڈاکٹر ارینا این سرنیکو(Dr Irina n Servenko) اور روس کے سرکاری خبر رساں ادارے اسپوتنک SPUTNIK کے اینڈریو کوریبکو نے بھی پاک روس تعلقات کی بہتری کیلئے گراں قدر تجاویز دیں۔ یہ بات نوٹ کی گئی کہ روس کی حکومت اور ارباب بست وکشاد اپنی سرحدوں سے باہر خطے میں اور عالمی سطح پر اس عمومی تاثر کو زائل کرنے کیلئے بہت سنجیدہ اور حساس ہیں جس کا ذکر ہم نے گزشتہ قسط کے آغاز میں کیا تھا۔ چنانچہ ایک جدید ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی سپر پاور کے امیج کو پھیلانے کیلئے روسی میڈیا اور انٹیلی جنشیا سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہاں کے تھینک ٹینکس، اکادمیاں، نیوز ایجنسیاں، پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنے اپنے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
رسمی اجلاس کے دوران سنجیدہ اور کثیف گفتگو کے بعد لنچ کا موقع آیا تو ایک بار پھر اردو دان روسی خاتون ڈاکٹر لدمیلا ہمارے سامنے تھیں جو بہانے بہانے سے پاکستان کا ذکر لے آتیں اور ان کی یہ ادا ہمیں سرشار کر دیتی۔ ہمارے ساتھ بیٹھے سینئر صحافی فہد حسین کا ان سے تعارف کرایا گیا تو ان سے مخاطب ہو کر بولیں ’’آپ کا تعلق پرانے لاہور سے تو نہیں؟ آپ کی گفتگو سے مجھے اندرون شہر کی خوشبو آرہی ہے اور پھر بھاٹی گیٹ سے موچی دروازے اور لاہور کے کھانوں کا ذکر شروع کردیا۔ بلکہ انہوں نے ماسکو کے کسی گنجان آباد علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ وہاں ضرور جائیں، آپ کو پرانے لاہور سے مماثلت دکھائی دے گی۔ ایک غیر ملکی خاتون سے اپنے وطن کے شہروں، کھانوں اور موسم کی تعریف اور وہ بھی اردو میں سن کر ہم سب کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اگلے دو روز ہمارے وفد نے مختلف صحافتی اداروں کا دورہ کیا اور وہاں کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کیں، جن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں شامل ہیں۔ یہ تجربہ منفرد بھی تھا اور دلچسپ بھی۔ جس میں دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی حاصل کی اور تجربات بھی شیئر کیے۔ یہ دورہ اور انٹریکشن ایک لحاظ سے ہمارے لیے چشم کشا بھی تھا کہ اس میں ہمیں روسی میڈیا اور اداروں کا اپنے ہاں کے صحافتی اداروں سے موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ صحافت سے وابستگی کے باعث ہم نے کم و بیش پاکستان کے تقریباً تمام بڑے میڈیا ہائوسز دیکھ رکھے ہیں، باقی ماندہ کو کراچی پریس کلب کے الیکشن کے موقع پر انتخابی مہم کے دوران دیکھ لیا۔ مگر بوجھل دل کے ساتھ یہ اعتراف کرتے ہی بن پڑ رہی ہے کہ یہاں اور وہاں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسٹیٹ آف دی آرٹ عمارتیں، جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی۔ ہر شعبے کے الگ الگ ماہرین پر مشتمل ٹیمیں اور سب سے بڑھ کر عالمی معیار کی پیشہ ورانہ انداز صحافت نے آج روسی میڈیا کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ مغرب اور امریکہ کیلئے یہ ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ امریکہ الزام لگاتا ہے کہ ٹرمپ کے الیکشن کے موقع پر روسی میڈیا بالخصوص رشیا ٹوڈے Russia Today نے اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے اور ان کی حریف ہیلری کلنٹن کو ہرانے کے لئے پروپیگنڈا کیا جس میں ظاہر ہے وہ کامیاب بھی رہا۔ سب سے بڑے حریف ملک کی جانب سے روسی سرکاری میڈیا پر اتنا بڑا الزام کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اسی طرح ٹوئٹر الزام لگاتا ہے کہbrexit کے معاملے پر RT نے یورپی یونین کی ریفرنڈم مہم کے دوران مداخلت کی اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے بھاری رقم خرچ کی۔ واضح رہے کہ RT روسی حکومت کے فنڈ سے چلنے والا نشریاتی ادارہ ہے جس نے کئی زبانوں میں اپنا عالمگیر میڈیا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ جن میں روسی کے علاوہ انگریزی، ہسپانوی(spanish ) ، فرانسیسی، جرمن اور عربی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے قیام کو صرف تیرہ برس ہوئے ہیں مگر اس کے نیٹ ورک کا کسی بھی لحاظ سے بی بی سی، سی این این اور الجزیرہ جیسے عالمی نشریاتی اداروں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ دراصل روسی میڈیا، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں وقت کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھا ہے اور چونکہ موجودہ صدی میڈیا وار فیئر کی صدی ہے لہٰذا ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر روس اس جنگ کو جیتنے کے لئے بے تحاشا وسائل خرچ کر رہا ہے۔آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ انٹرفیکس اور SPUTNIK جیسے خبر رساں اداروں کے دفاتر جن عمارتوں میں قائم ہیں وہ ہمارے ہاں وزارت خارجہ کی عمارت سے زیادہ بڑی ہیں۔ ہمیں RT کے علاوہ مذکورہ دونوں اداروں کے دورے کا بھی موقع ملا۔ انٹرفیکس کے سربراہ RENAT ABDULLIN نے بتایا کہ ان کا ادارہ مالی طور پر خود مختار ہے اور75 فیصد فنڈز مختلف بزنس، جبکہ 25 فیصد خبروں کی فروخت سے پیدا کرتا ہے جو مختلف میڈیا ہائوسز کو فراہم کی جاتی ہیں۔Russia Today کے مینیجنگ ایڈیٹر الیکسی نکولوف ALEXEY NIKOLOV)) سے پاکستانی وفد کی ملاقات بڑی تفصیلی اور سیر حاصل رہی۔ انہوں نے نیوز چینلز کے لیے24/7 کے بجائے86400/7 کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب یہ تھا کہ مقابلے کی دوڑ اس قدر تیز ہے کہ آپ کوہر آ نے والے سیکنڈ کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا ’’روس کے ریاستی میڈیا کے طور پر ہمارا ادارہ ہمہ وقت امریکہ کے نشانہ پر رہتا ہے۔ روس پر پابندیاں لگتی ہیں تو اس کے اثرات کی زد میں RT اور اس سے منسلک میڈیا ادارے بھی آتے ہیں۔ علاوہ ازیں RT کیخلاف امریکہ اور مغرب میں باقاعدہ پراپیگنڈہ سیل قائم کئے گئے ہیں جو اس کے حوالے سے منفی اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں مگر ہم اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں کہ ہماری وجہ سے بڑی عالمی طاقتیں خوفزدہ ہیں۔ یہ چومکھی لڑائی ہمیں ہر دم بیدار رکھتی اور مقابلے کی فضاء میں اپنا آپ منوانے کا جذبہ پید اکرتی ہے۔‘‘ اس میٹنگ میں دونوں ملکوں کے سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا کے درمیان معلومات کے تبادلے اور تعاون کی تجاویز بھی زیر بحث آئیں۔ روسی میڈیا کی پیشہ وارانہ اہلیت۔ استعداد کار اور نیٹ ورک نہایت متاثر کن ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر خبر رساں اداروں کے دفاتر عموماً دو تین کمروں کے دفاتر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے معاملے میں یہ کمرے زیادہ اور افرادی قوت بڑھ جاتی ہے مگر ان اداروں کا روسی خبر رساں اداروں کے ساتھ موازنے کا تصور بھی ممکن نہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ شاندار عمارتوں میں قائم ہیں، اسٹیٹ آف دی آرٹ انفرا اسٹرکچر کے حامل اور بہترین پروفیشنلز سے لیس ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ وہاں کی نیوز ایجنسیاں دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ جو خاص طور پر روس کے کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں۔ جبکہ دوسری، عام خبر رساں اداروں کی طرح خبروں کی ترسیل پر مامور ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرفیکس دنیا بھر میں روس کی کاروباری دلچسپی کے حوالے سے ڈیٹا جمع کرتی ہے۔ اس کے پاس نہ صرف ملک کے اندر مختلف بزنسز کا مربوط ڈیٹا لنک موجود ہے بلکہ یہ روس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کاروباری اداروں کو کلائنٹ بھی مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں سرکاری خبر رساں ادارے SPUTNIK کی قیادت سے بھی گفتگو کا موقع ملا جو بیک وقت ٹی وی چینل، ریڈیو، ویب سائٹ اور نیوز ایجنسی کا مکمل پیکج ہے۔ واشنگٹن، قاہرہ، بیجنگ، لندن، سنگا پور اور ایڈنبرگ جیسے اہم ترین شہروں میں اس کے ریجنل دفاتر قائم ہیں۔ اس ادارے کا موضوع عالمی سیاست اور ہدف غیر روسی شہری ہیں۔ یعنی یہ روس سے باہر پوری دنیا میں میڈیا کے محاذ پر اپنے ملک کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کی ویب سائٹس دنیا کی تیس اہم زبانوں میں خبریں اور تجزیئے فراہم کرتی ہیں۔ مختلف زبانوں میں مجموعی طور پر اس کی یومیہ 800 گھنٹے کی ریڈیو نشریات چلتی ہیں۔ دراصل روس کو اس بات کا ادراک ہو چکاہے کہ میڈیا کے شعبے میں آنے والے انقلاب کے نتیجے میں چیزیں بہت تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ جن کا مقابلہ پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا اپنے اپنے طور پر تنہا نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ روس میں ان تمام کو ایک چھت تلے یکجا کر کے ان کی طاقت مجتمع کر لی گئی ہے اور روسی میڈیا اس وقت دنیا کا بہترین ہائی برڈ میڈیا پلیٹ فارم (HYBRID) بن چکا ہے۔ روسی میڈیا کے ذمہ داروں کے مطابق انہیں اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، تاہم وہ قومی مفاد کے معاملے میں خود بھی حساس ہیں۔ لہٰذا چہ آلات اور ٹیکنالوجی۔ ہر شعبے کے الگ الگ ماہرین پر مشتمل ٹیمیں اور سب سے بڑھ کر عالمی معیار کی پیشہ ورانہ انداز صحافت نے آج روسی میڈیا کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ مغرب اور امریکہ کیلئے یہ ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ امریکہ الزام لگاتا ہے کہ ٹرمپ کے الیکشن کے موقع پر روسی میڈیا بالخصوص رشیا ٹوڈے Russia Today نے اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے اور ان کی حریف ہیلری کلنٹن کو ہرانے کے لئے پروپیگنڈا کیا جس میں ظاہر ہے وہ کامیاب بھی رہا۔ سب سے بڑے حریف ملک کی جانب سے روسی سرکاری میڈیا پر اتنا بڑا الزام کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اسی طرح ٹوئٹر الزام لگاتا ہے کہbrexit کے معاملے پر RT نے یورپی یونین کی ریفرنڈم مہم کے دوران مداخلت کی اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے بھاری رقم خرچ کی۔ واضح رہے کہ RT روسی حکومت کے فنڈ سے چلنے والا نشریاتی ادارہ ہے جس نے کئی زبانوں میں اپنا عالمگیر میڈیا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ جن میں روسی کے علاوہ انگریزی، ہسپانوی(spanish ) ، فرانسیسی، جرمن اور عربی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے قیام کو صرف تیرہ برس ہوئے ہیں مگر اس کے نیٹ ورک کا کسی بھی لحاظ سے بی بی سی، سی این این اور الجزیرہ جیسے عالمی نشریاتی اداروں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ دراصل روسی میڈیا، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں وقت کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھا ہے اور چونکہ موجودہ صدی میڈیا وار فیئر کی صدی ہے لہٰذا ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر روس اس جنگ کو جیتنے کے لئے بے تحاشا وسائل خرچ کر رہا ہے۔آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ انٹرفیکس اور SPUTNIK جیسے خبر رساں اداروں کے دفاتر جن عمارتوں میں قائم ہیں وہ ہمارے ہاں وزارت خارجہ کی عمارت سے زیادہ بڑی ہیں۔ ہمیں RT کے علاوہ مذکورہ دونوں اداروں کے دورے کا بھی موقع ملا۔ انٹرفیکس کے سربراہ RENAT ABDULLIN نے بتایا کہ ان کا ادارہ مالی طور پر خود مختار ہے اور75 فیصد فنڈز مختلف بزنس، جبکہ 25 فیصد خبروں کی فروخت سے پیدا کرتا ہے جو مختلف میڈیا ہائوسز کو فراہم کی جاتی ہیں۔Russia Today کے مینیجنگ ایڈیٹر الیکسی نکولوف ALEXEY NIKOLOV)) سے پاکستانی وفد کی ملاقات بڑی تفصیلی اور سیر حاصل رہی۔ انہوں نے نیوز چینلز کے لیے24/7 کے بجائے86400/7 کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب یہ تھا کہ مقابلے کی دوڑ اس قدر تیز ہے کہ آپ کوہر آ نے والے سیکنڈ کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا ’’روس کے ریاستی میڈیا کے طور پر ہمارا ادارہ ہمہ وقت امریکہ کے نشانہ پر رہتا ہے۔ روس پر پابندیاں لگتی ہیں تو اس کے اثرات کی زد میں RT اور اس سے منسلک میڈیا ادارے بھی آتے ہیں۔ علاوہ ازیں RT کیخلاف امریکہ اور مغرب میں باقاعدہ پراپیگنڈہ سیل قائم کئے گئے ہیں جو اس کے حوالے سے منفی اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں مگر ہم اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں کہ ہماری وجہ سے بڑی عالمی طاقتیں خوفزدہ ہیں۔ یہ چومکھی لڑائی ہمیں ہر دم بیدار رکھتی اور مقابلے کی فضاء میں اپنا آپ منوانے کا جذبہ پید اکرتی ہے۔‘‘ اس میٹنگ میں دونوں ملکوں کے سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا کے درمیان معلومات کے تبادلے اور تعاون کی تجاویز بھی زیر بحث آئیں۔ روسی میڈیا کی پیشہ وارانہ اہلیت۔ استعداد کار اور نیٹ ورک نہایت متاثر کن ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر خبر رساں اداروں کے دفاتر
عموماً دو تین کمروں کے دفاتر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے معاملے میں یہ کمرے زیادہ اور افرادی قوت بڑھ جاتی ہے مگر ان اداروں کا روسی خبر رساں اداروں کے ساتھ موازنے کا تصور بھی ممکن نہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ شاندار عمارتوں میں قائم ہیں، اسٹیٹ آف دی آرٹ انفرا اسٹرکچر کے حامل اور بہترین پروفیشنلز سے لیس ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ وہاں کی نیوز ایجنسیاں دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ جو خاص طور پر روس کے کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں۔ جبکہ دوسری، عام خبر رساں اداروں کی طرح خبروں کی ترسیل پر مامور ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرفیکس دنیا بھر میں روس کی کاروباری دلچسپی کے حوالے سے ڈیٹا جمع کرتی ہے۔ اس کے پاس نہ صرف ملک کے اندر مختلف بزنسز کا مربوط ڈیٹا لنک موجود ہے بلکہ یہ روس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کاروباری اداروں کو کلائنٹ بھی مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں سرکاری خبر رساں ادارے SPUTNIK کی قیادت سے بھی گفتگو کا موقع ملا جو بیک وقت ٹی وی چینل، ریڈیو، ویب سائٹ اور نیوز ایجنسی کا مکمل پیکج ہے۔ واشنگٹن، قاہرہ، بیجنگ، لندن، سنگا پور اور ایڈنبرگ جیسے اہم ترین شہروں میں اس کے ریجنل دفاتر قائم ہیں۔ اس ادارے کا موضوع عالمی سیاست اور ہدف غیر روسی شہری ہیں۔ یعنی یہ روس سے باہر پوری دنیا میں میڈیا کے محاذ پر اپنے ملک کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کی ویب سائٹس دنیا کی تیس اہم زبانوں میں خبریں اور تجزیئے فراہم کرتی ہیں۔ مختلف زبانوں میں مجموعی طور پر اس کی یومیہ 800 گھنٹے کی ریڈیو نشریات چلتی ہیں۔ دراصل روس کو اس بات کا ادراک ہو چکاہے کہ میڈیا کے شعبے میں آنے والے انقلاب کے نتیجے میں چیزیں بہت تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ جن کا مقابلہ پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا اپنے اپنے طور پر تنہا نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ روس میں ان تمام کو ایک چھت تلے یکجا کر کے ان کی طاقت مجتمع کر لی گئی ہے اور روسی میڈیا اس وقت دنیا کا بہترین ہائی برڈ میڈیا پلیٹ فارم (HYBRID) بن چکا ہے۔ روسی میڈیا کے ذمہ داروں کے مطابق انہیں اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، تاہم وہ قومی مفاد کے معاملے میں خود بھی حساس ہیں۔ لہٰذا چہ میگوئیوں کی بنیاد پر خبریں نہیں دیتے۔ وہاں آئے روز ایسے ایشوز کھڑے بھی نہیں کئے جاتے جن کے نتیجے میں انتشار پیدا ہو۔ بہر حال روسی میڈیا اداروں کا دورہ اور انٹریکشن ہمارے لئے بہت دلچسپی کا باعث رہا۔ جہاں جدید عمارتوں کے اندر حیرتوں کا اک جہاں آباد تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment