شیخ عبد اللہ عزامؒ جہاد افغانستان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمن نے معرکہ ریجی (بکی) کے بارے میں بتایا: ’’ہم کو روسی ٹینکوں نے گھیر لیا اور ٹینکوں اور توپوں کی تعداد ایک سو پچاس سے لے کر دو سو تک ہو گئی، چنانچہ انہوں نے ہمارے اوپر اتنی شدید بمباری کی کہ جس کی وجہ سے دو تین دن تک ہم کوئی بات نہیں سن سکتے تھے، پھر معرکے کے درمیان ہی ہمیں نیند آگئی اور ہم بے فکر ہو گئے۔
اتنے میں ایک مجاہد نے ایک ٹینک پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی، اس ٹینک کا ایک جلتا ہوا ٹکڑا ایک پرانی گاڑی پر جب گرا تو اس کے نتیجے میں سات گاڑیاں دھماکے سے اڑ گئیں اور ہمیں پانچ گاڑیاں بطور غنیمت حاصل ہوئیں۔
شیخ عبداللہ عزامؒ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یوردل نے بتایا: ’’ہمارے اور روسیوں کے درمیان ایک معرکہ ہوا جو سات دن تک چلا، جس میں ہمارے پاس ہتھیار کا ذخیرہ ختم ہو گیا، تو اسی رات روسیوں پر تین طرف سے حملہ ہوا، جبکہ ہمیں حملے کی اطراف معلوم نہیں تھیں، چنانچہ روسی ہتھیاروں کی اس قسم سے حیران ہو گئے جو ان پر پھینکاجارہا تھا، کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے ایسا اسلحہ نہیں دیکھا تھا۔
(الفرج بعد الشدۃ، شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ شاہ فہد یونیورسٹی ریاض سعودی عرب)
ابو سالم دسیم بن ابراہیم فرماتے ہیں:
’’ میں نے آذربائیجان کے کنارے پر ایک نہر دیکھی جس کو ’’رس‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور اس میں بہت سارے پتھر تھے، جن میں سے کچھ پانی کے اوپر نظر آتے تھے اور کچھ پانی کے اندر تھے۔ اس میں کشتیوں کی کوئی راہ گزر نہ تھی۔ اس کے ایسے خطرناک کنارے تھے، جن کی کسی کام کے تحت منصوبہ بندی نہ کی گئی تھی۔ اس نہر پر ایک پل تھا جس پر ہر وقت قافلے گزرتے رہتے تھے۔
چنانچہ ایک دن میں اپنے لشکر کے ساتھ اس پر سے گزر رہا تھا۔ جب میں پل کے بیچ میں پہنچا تو میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے ایک چھوٹے بچے کو اٹھائے ہوئے تھی، اس پر اچانک ایک خچر نے حملہ کیا، جس کی وجہ سے وہ خود پل پر گر گئی اور بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نہر میں گر گیا اور اسے پل اور پانی کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہونے کی وجہ سے بہت کم وقت لگا۔ پھر بچے نے غوطہ کھایا اور لشکر میں شور مچ گیا۔ ہم نے اس بچے کو پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے دیکھا اور وہ اس پتھر سے بال بال بچ گیا۔اور حال یہ تھا کہ اس جگہ پر کثرت سے عقاب پائے جاتے تھے اور اس نہر کے کناروں پر ان کے گھونسلے تھے۔پھر وہ بچہ ایک رسی میں پھنس گیا، ادھر سے اچانک ایک عقاب اڑا اور اس کو شکار گمان کرتے ہوئے اس کے پاس آیا۔ پھر اس کو پکڑا اور اپنے پنجے اس میں گاڑتے ہوئے اڑ گیا اور صحراء کی طرف نکل گیا۔میں بچے کے بچ جانے کی تمنا کرنے لگا۔ سو میں نے چند آدمیوں سے کہا: ’’ تم لوگ عقاب کے پیچھے دوڑو۔‘‘ پھر میں خود بھی اس کے پیچھے دوڑا۔اتنے میں عقاب اچانک زمین پر اتر کر بچے کو چیر پھاڑنے کے لیے اس کی رسی کاٹنے لگا۔ جب ان لوگوں نے بچے کو دیکھا تو سب کے سب چیخیں مارتے ہوئے اس کی طرف لپکے اور عقاب کو خوف زدہ کر دیا۔ سو وہ بچے کو زمین پر چھوڑ کر اڑ گیا۔پھر ہم نے آکر جب بچے کو اٹھایا تو وہ بالکل صحیح سلامت تھا۔ وہ معمولی زخمی بھی نہیں ہوا تھا، ہم نے اس کو الٹا لٹایا، یہاں تک کہ اس کے پیٹ سے پانی نکل گیا اور پھر اس کو زندہ صحیح سلامت اس کی ماں کے حوالے کر دیا۔‘‘ (حوالہ بالا)
٭٭٭٭٭