بڑبولے ٹرمپ نے سعودیہ کی آڑ میں پاکستان کو پیغام دیا

امت رپورٹ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی سعودی بادشاہ کو دھمکی کی مختلف تشریحات اور پہلو بیان کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خطے کے سیاسی و جغرافیائی ایشوز اور انٹیلی جنس معاملات سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مغرور ٹرمپ نے سعودی عرب کو مخاطب کر کے دراصل پاکستان کو بین السطور یہ پیغام دیا ہے کہ ریاض کے حکمرانوں کا تحفظ اسلام آباد نہیں، بلکہ واشنگٹن کا مرہون منت ہے۔ لہٰذا سعودیہ کو اپنی خارجہ امور سے متعلق بڑے فیصلے کرنے کے لئے امریکی اجازت درکار ہے۔ چاہے یہ فیصلے سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے ہوں یا پاکستان کی مالی امداد سے متعلق ہوں۔ اس میں امریکی مفادات اور ڈکٹیشن کو سرفہرست رکھنا سعودی بادشاہوں کی مجبوری ہے۔ اور یہ کہ اگر امریکی فوج نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا تو پھر پاکستان چاہے ساتھ کھڑا رہنے کی یقین دہانی کراتا رہے، سعودی بادشاہ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ واضح رہے کہ بدھ کے روز امریکی ریاست میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت امریکی فوج کی مدد کے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے ٹرمپ کی اس دھمکی پر کہا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ واشنگٹن کی جانب سے خلیج میں اپنے سب سے قریبی اتحادی پر ڈالے جانے والا دبائو ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول ٹرمپ نے یہ دھمکی دے کر ایک تیر سے دو شکار کھیلے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے متعلق دبائو کا فیکٹر اپنی جگہ ہے۔ جبکہ ٹرمپ نے دوسری جانب اسلام آباد کو جتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ امریکہ ہے، جو سعودی حکمرانوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ اور یہ پیغام دے کر وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو کائونٹر کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’کسی کو بھی سعودی عرب پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان، ریاض کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق اس وقت امریکہ کو ایران کے بعد سب سے زیادہ تکلیف پاکستان سے ہے۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کو بیل آئوٹ کرانے کے لئے سعودی عرب متحرک رول ادا کرے۔
ادھر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے چین سے مشاورت کئے بغیر سعودی عرب کو سی پیک میں تیسرا پارٹنر بنانے کی پیشکش کی تھی۔ حالانکہ دو ممالک کے درمیان Bilateral Agreement (دو طرفہ معاہدہ) میں کسی تیسرے شراکت دار کو لانے کے لئے دونوں فریقوں کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے۔ اس پر چین کی طرف سے تحفظات کا اظہار کئے جانے کے بعد حکومت کو بیک فٹ پر آ کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ سعودی عرب کو سی پیک میں بطور پارٹنر یا شراکت دار نہیں، بلکہ ایک سرمایہ کار کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ ناقدین اس فیصلے کو بھی موجودہ حکومت کا ایک اور یو ٹرن قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اس سے بین الاقوامی معاملات اور معاہدوں کو سمجھنے میں حکومتی ناتجربہ کاری کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ کہانی اس لئے بھی تبدیل کرنی پڑی کہ مخالف حلقوں اور ایک ہمسایہ ملک میں بھی اس اعلان کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔
معروف عسکری و دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی سعودیہ کو دھمکی دراصل پاکستان کو دیا جانے والا پیغام ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے آصف ہارون کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان نے نہ واشنگٹن کو آنکھیں دکھائی ہیں اور نہ یہ کہا ہے کہ وہ بڑے خود مختار ہیں۔ اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں اور انہیں کسی کی ضرورت نہیں۔ پھر ٹرمپ شاہ سلمان کو یہ دھمکی کیوں دیں گے؟ امریکہ نے یہ نپی تلی بات پاکستان کو Convey کی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے بیان کا بالواسطہ جواب دیا ہے کہ سعودی عرب کی حفاظت کا اعلان کرنے والے آپ کون ہوتے ہو؟ ایک سوال پر آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب آزادانہ طور پر خارجہ پالیسی بنانے سے قاصر ہے۔ امریکہ کی مرضی کے بغیر خارجہ معاملات میں ریاض کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا حریف چین ہے۔ امریکہ کی ساری گلوبل اسٹرٹیجی بیجنگ کے بڑھتے قدم روکنے پر مرکوز ہے۔ امریکہ کو ادراک ہے کہ 2025ء تک چین معاشی طور پر اس سے آگے نکل جائے گا۔ لہٰذا چین کو اس نے ہر حال میں روکنا ہے۔ چینی پیش قدمی روکنے کے لئے خطے میں امریکہ اپنے بڑے اسٹرٹیجک پارٹنر سعودی عرب کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب کو سی پیک میں لانے پر خوشیاں منانے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سعودی عرب اس پروجیکٹ میں آزاد طور پر شامل ہو رہا ہے یا کسی کے کہنے پر آ رہا ہے۔ اگر کل امریکی شہ پر سعودی عرب، چین کو باہر کر کے اس پروجیکٹ پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یعنی چین کو بیک فٹ پر کر کے ریاض، سی پیک کا مرکزی کھلاڑی بن جاتا ہے تو اس پروجیکٹ کا سارا اسٹرٹیجک سنیاریو تبدیل ہو جائے گا۔ سی پیک چین کے عالمی پلان اور خواہشات کا مرکز ہے۔ چینی اپنی گیم کھیل رہے ہیں اور امریکہ اپنی گیم کھیل رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو ہر طرح سے دبایا کہ کسی طرح سی پیک منصوبے کو ترک کر دے، لیکن پاکستان نے دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ حکومت بدل گئی اور نئے حکمران آ گئے، لیکن سی پیک پر کام جاری ہے۔ لہٰذا سعودی عرب کے سی پیک میں داخل ہونے کے پیچھے ان تمام عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کل کو امریکہ خود بھی سی پیک میں آ کر براہ راست سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اگر سی پیک کا مخالف امریکہ اور اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر سعودی عرب اس پروجیکٹ میں آ جاتے ہیں تو سارا گیم تبدیل ہو سکتا ہے‘‘۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ جب بغیر سوچے سمجھے سی پیک میں سعودی عرب کو بطور پارٹنر شامل کرنے کا بڑا اعلان کر دیا گیا تو اس پر آنے والے ردعمل کے سبب حکومت کو یوٹرن لینا پڑا۔ چین نے یہ ضرور کہا تھا کہ سی پیک میں سعودی عرب سمیت کسی سے بھی ملک سے سرمایہ کاری کرائی جا سکتی ہے، لیکن پارٹنر بنانے کا معاملہ الگ ہے۔ تیسرے شراکت دار کا مطلب ہے کہ 2014ء کے ابتدائی دو طرفہ معاہدے کو منسوخ کر کے ایک نئے معاہدے کی تشکیل۔ تاہم اس اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں چین کے تحفظات پاکستان کی اہم شخصیت نے دور کر دیئے۔ اور پھر حکومت نے بھی اب یہ اعلان کر کے بیجنگ کو ٹھنڈا کر دیا ہے کہ سعودی عرب کو سی پیک کا شراکت دار نہیں، بلکہ سرمایہ کار کے طور پر لایا جا رہا ہے۔ آصف ہارون کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہی عمران خان اور تحریک انصاف تھی جس نے یمن میں پاکستان کے براہ راست ملوث ہونے کے ایشو پر شور مچایا تھا کہ اس سے ہمارا ہمسایہ ملک ایران ناراض ہو جائے گا۔ اب جبکہ سعودی عرب کو سی پیک کے تحت گوادر میں بھاری سرمایہ کاری کی اجازت دی جا رہی ہے تو اس پر بھی ایران کو تحفظات ہیں۔ ریاض اس وقت تہران کا سب سے بڑا حریف ہے۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ ایرانی صوبے سیستان کی سرحد کے ساتھ لگنے والے بلوچستان میں سعودی عرب سرمایہ کار کے طور پر آ کر بیٹھ جائے۔ ایران کو علیحدگی پسند ایرانی عربوں کی تحریک آزادی کا سامنا بھی ہے۔
آصف ہارون کے بقول جہاں تک سی پیک کے دو طرفہ معاہدوں پر کچھ نظرثانی کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں پچھلی حکومت سے کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ نون لیگ نے اقتدار سنبھالا تھا تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تو سابق حکمرانوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اس خوشی میں معاہدوں میں توازن کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ طے کر لیا گیا تھا کہ اتنی بڑی کامیابی کو اگلا الیکشن آسانی سے جیتنے کے لئے کیش کرا لیا جائے گا۔ یوں سابق حکمران سی پیک کے تحت پے در پے معاہدے کرتے چلے گئے۔ یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی گئی کہ کون سا معاہدہ کس کے مفاد میں زیادہ ہے۔ اب نئی حکومت آئی تو پتہ چلا کہ تجارتی توازن 95 فیصد چینی مفاد میں اور محض پانچ فیصد پاکستان کے مفاد میں ہے۔ آصف ہارون کے بقول دراصل پاکستان ہمیشہ سے دنیا بھر میں سب سے Poorest Negotiator (کمزور ترین مذاکرات کار) رہا ہے۔ پاکستان کے پاس بہترین مواقع آئے، جب وہ اپنے تمام قرضے تک معاف کرا سکتا تھا۔ لیکن بارگیننگ پوزیشن سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ سی پیک کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان کو چین کا 12 ارب ڈالر قرضہ دینا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment